پاکستان میں 3 برسوں کے دوران صنفی تشدد کے 63 ہزار کیسز رپورٹ

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2023
رپورٹ کے اعداد و شمار رپورٹ شدہ کیسز پر مبنی ہیں، اس لیے اصل تعداد اس سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے — فوٹو: رائٹرز
رپورٹ کے اعداد و شمار رپورٹ شدہ کیسز پر مبنی ہیں، اس لیے اصل تعداد اس سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے — فوٹو: رائٹرز

پاکستان میں گزشتہ تین سال میں صنفی بنیاد پر تشدد کے تقریباً 63 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے تقریباً 4 ہزار کیسز سال 2020 کی ابتدائی ششماہی میں رپورٹ ہوئے جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کی جانب سے منگل کو جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا۔

کمیشن نے انسانی حقوق کی وزارت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 80 فیصد واقعات گھریلو تشدد سے متعلق ہیں جبکہ 47 فیصد گھریلو ریپ کے ہیں جس میں شادی شدہ خواتین کو جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ چونکہ اعداد و شمار رپورٹ شدہ کیسز پر مبنی ہیں، اس لیے اصل تعداد اس سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے۔

این سی ایچ آر کی ازدواجی ساتھی کے تشدد سے متعلق کلیدی کردار ادا کرنے والے محرکات پر مبنی رپورٹ ایک ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں شرکا کے ساتھ شیئر کی گئی۔

57 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی بریف تھی جس میں امید ظاہر کی گئی کہ قانونی ڈھانچہ بنانے سے امتیازی نظام اور پدرانہ ڈھانچے کو حل کیا جاسکتا ہے جو صنفی بنیاد پر تشدد میں حصہ ڈالتے ہیں۔

تقریب میں سینیٹر شیری رحمٰن، رکن قومی اسمبلی شازیہ مری، وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کے چیف جسٹس محمد انور اور آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر سمیت دیگر نے شرکت کی۔

سینیٹر شیری رحمٰن اور شازیہ مری نے اپنی تقاریر کے دوران ان کیسز کو بڑی تصویر کی معمولی سے جھلک قرار دیا۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد ’طاقت‘ کا مظاہرہ ہے اور ایسے معاملات کو پوشیدہ وبائی بیماری’ اور ’قابل شرم اعدادوشمار‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار حیران کن ہیں، 90 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود 50 فیصد اس کی اطلاع نہیں دیتیں اور ان میں سے صرف 0.4 فیصد عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی نے مزید کہا کہ ’ہمارا معاشرہ پدرانہ نظام سے جڑا ہوا ہے اور یہ خواتین کو ادارہ جاتی، سماجی اور ثقافتی اصولوں کی سلسلے کے ذریعے محکوم بناتا ہے جو خواتین کے خلاف تشدد کی اجازت دیتے ہیں اور اسے معمول بناتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ قوانین کا نفاذ اور سماجی سطح پر تبدیلیاں بھی اتنی ہی اہم ہیں۔

شیری رحمٰن نے بتایا کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کا ایک بل پہلی بار 2004 میں پیش کیا گیا تھا لیکن قانون سازی ابھی تک نہیں ہوسکی۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن شازیہ مری نے کہا کہ ’مرد بنو‘ اور معاشرے میں رائج اس جیسے دیگر جملے خواتین کو بدنام کرنے کی کوشش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا وہ اپنی معاشی اور سماجی ترقی کو محدود کر رہا ہوتا ہے۔

شازیہ مری نے ’عورت مارچ‘ پر ہونے والی تنقید کا بھی جواب دیا اور کہا کہ اگر آپ اپنی خواتین کو تحفظ فراہم کریں گے تو اس طرح کے احتجاج کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں