مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں نیا کیا ہے؟

اگرچہ اس سال کے بجٹ کا نقطہ نظر نیا نہیں تھا تاہم کچھ ایسے اقدامات تھے جو منفرد ہیں—تصویر: ثوبیہ شاہد
اگرچہ اس سال کے بجٹ کا نقطہ نظر نیا نہیں تھا تاہم کچھ ایسے اقدامات تھے جو منفرد ہیں—تصویر: ثوبیہ شاہد

حالیہ برسوں کے بیشتر بجٹوں کی طرح مالی سال 24-2023 کا بجٹ بھی بڑھتے ہوئے قرض کی وجہ سے اخراجات کی مالی اعانت پر بھاری ہے یہاں تک کہ موجودہ اخراجات کا ایک بڑا حصہ (50 فیصد سے زیادہ) قرض کی ادائیگی پر مشتمل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اس سال کے بجٹ کا نقطہ نظر نیا نہیں تھا تاہم کچھ ایسے اقدامات تھے جو منفرد ہیں۔

ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت رقم کی حد میں خاطر خواہ اضافہ کر رہی ہے جو ذرائع کے بارے میں سوال کیے بغیر بیرونِ ملک سے پاکستان بھیجی جاسکتی ہے۔

بجٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ اس حد کو 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 3 کروڑ روپے) کر دیا جائے ساتھ ہی ’غیر واضح آمدنی/اثاثہ جات کی نوعیت اور ذرائع پوچھنے پر پابندی‘ لگائی جائے۔

غالباً یہ اقدام ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت دینے کی کوشش ہے، جو اس وقت 4 ارب ڈالر سے بھی کم اور بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔

حکومت نے ’ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے غیر رہائشیوں کو‘ ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک سے 5 فیصد تک اضافے کی تجویز بھی پیش کی ہے کیونکہ اس سے ملک سے ڈالر کے اخراج کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

یہ اقدام اگر منظور ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام بین الاقوامی ای کامرس لین دین (ایمیزون، نیٹ فلکس وغیرہ) زیادہ مہنگے ہو جائیں گے۔

وزیر خزانہ کا تجویز کردہ ایک اور نیا اقدام چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں ایس ایم ایز کو بینکوں سے قرض حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے

اپنی تقریر کے دوران اسحٰق ڈار نے کہا کہ مرکزی بینک کی ایک اسکیم نے ایس ایم ایز کو اپنے قرضوں کو 6 فیصد مارک اپ پر دوبارہ فنانس کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی چونکہ ایس ایم ایز کی اکثر کریڈٹ ہسٹری نہیں ہوتی اس لیے بینک انہیں قرض فراہم کرنے میں ہچکچاتے ہیں، جس کے تدارک کے لیے حکومت اس اسکیم کے تحت ایس ایم ایز کو دیے گئے قرضوں پر 20 فیصد خطرہ مول لے گی۔

اس سال کے بجٹ میں غیر ملکی کمپنیوں (آئی ٹی خدمات برآمد کرنے) کے لیے کام کرنے والے پاکستانی فری لانسرز کو کاٹیج انڈسٹری کا درجہ دے کر آئی ٹی خدمات اور پیشہ ور افراد کی حوصلہ افزائی پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے نتیجے میں آزاد برآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

حکومت نے ’13 سو سی سی سے اوپر کی ایشیائی ساخت کی پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں‘ کی درآمد پر مقررہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی حدیں بھی ختم کر دی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جاپان اور چین سے ری فربشڈ شدہ 13 سو سی سی کاریں، جن کی پاکستان میں بڑی مارکیٹ ہے ممکنہ طور پر مزید مہنگی ہو جائیں گی البتہ چھوٹی کاریں جیسے میرا اور آلٹو، اس اقدام سے متاثر نہیں ہوں گی۔

اسحٰق ڈار نے اعلان کیا کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز، موبائل والٹس یا کیو آر اسکیننگ کے ذریعے ریسٹورنٹس میں ادائیگی پر حکومت نے ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی الیکٹرانک طریقے سے ادائیگی کا انتخاب کرتا ہے تو ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا سستا ہوگا۔

حکومت کے سولرائزیشن اقدام کے مطابق بجٹ میں شمسی توانائی کی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس استثنیٰ میں انورٹرز، سولر پینلز اور بیٹریوں جیسی اہم اشیا شامل ہیں، جو ملک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کی جانب ایک مثبت قدم کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ اس سے عام صارف کے لیے شمسی توانائی کو اپنانے کے اخراجات کم ہونے کا امکان ہے۔

بجٹ میں جن دیگر قابل ذکر اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں استثنیٰ یا سیلز ٹیکس میں ریلیف تجویز کیا گیا ہے ان میں:

  • ڈائپرز اور سینیٹری نیپکن کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ۔
  • شرمپس/جھینگے/ تجارتی فش فارمز اور ہیچریوں میں افزائش نسل کے لیے ان کے بچوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ۔
  • استعمال شدہ کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ۔
  • مانع حمل اور دیگر اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی منظوری۔
  • غیر رہائشی سمندر پار پاکستانیوں کے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر 2 فیصد حتمی ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ
  • بلڈر کے لیے ٹیکس کی ذمہ داری میں 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے کی کمی، اس میں سے جو بھی کم ہو، اور اپنا گھر تعمیر کرنے والے فرد پر تین سال کے لیے 10 فیصد یا 10 لاکھ روپے کی کمی جو بھی کم ہو۔

اس کے برعکس کچھ ایسے اقدام ہیں جن سے عام آدمی کی جیب کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے:

  • برانڈ ناموں یا ٹریڈ مارک کے تحت بلک میں فروخت ہونے والی خوردنی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو واپس لینا۔
  • چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا کاروبار کرنے والے پوائنٹ آف سیل خوردہ فروشوں کی جانب سے فراہم کردہ سپلائیز پر سیلز ٹیکس کی شرح میں 12 فیصد سے 15 فیصد تک اضافہ۔
  • الیکٹرک پاور ٹرانسمیشن سروسز پر 15 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز۔
  • غیر فعال ٹیکس دہندگان کے لیے نقد رقم نکالنے پر 0.6 فیصد ایڈوانس ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکس کا دوبارہ نفاذ۔
  • ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے غیر مقیم افراد کو ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک سے 5 فیصد تک اضافہ، (غیر فعال ٹیکس دہندگان کے لیے دو فیصد سے 10 فیصد)۔
  • توانائی بچانے والے پنکھوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2 ہزار روپے فی پنکھا اور 20 فیصد قیمت پر انکینڈیسنٹ بلب لگانے کی تجویز ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں