جنوری میں انتخابات نہ ہوئے تو پیپلزپارٹی سڑکوں پر نکلے گی، نیئر بخاری

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2023
نیر بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس تو ملک کو چلانے کا آئین کے مطابق الیکشن کا ہی فارمولا ہے—فوٹو:ڈان نیوز
نیر بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس تو ملک کو چلانے کا آئین کے مطابق الیکشن کا ہی فارمولا ہے—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما نیئر بخاری نے ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوری میں انتخابات نہ ہوئے تو پیپلزپارٹی سڑکوں پر نکلے گی، دھرنا دے گی۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر پرسن نادر گرامانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تحفظات پر کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے سوال ہے کہ ملک کون سنبھالے گا؟

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب ⁦‬⁩کے پاس ملک کو چلانے کا کون سا فارمولا ہے؟ ہمارے پاس تو آئین کے مطابق الیکشن کا ہی فارمولا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر جنوری میں انتخابات نہ ہوئے تو پیپلزپارٹی سڑکوں پر نکلے گی، دھرنا دے گی، دھرنا ڈی چوک پر ہوگا یا کہیں اور اس کا فیصلہ بعد میں پارٹی کرے گی۔

یاد رہے کہ عام انتخابات میں تین ماہ سے زائد کی تاخیر کو مبینہ طور پر تسلیم کرنے پر گزشتہ چند ہفتوں میں کئی بار پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے جاری کردہ بیان کو آڑھے ہاتھوں لیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ موسم سرما میں انتخابات کا انعقاد ناممکن ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ نئی حلقہ بندیاں آئندہ عام انتخابات کے لیے اہم ہیں جبکہ جے یو آئی جنوری اور فروری میں شدید موسم سرما کی وجہ سے عام انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھا رہی ہے، لہٰذا پاکستان کے لوگوں کو عام انتخابات سے بھاگنے والوں کو سمجھنا اور پہچاننا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’میں یہ واضح کردوں کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، ہم وقت پر انتخابات کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے‘۔

بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری کو جواب دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان اسلم غوری نے کہا تھا کہ پی پی پی اپنی اصل تکلیف سامنے لائے اور سابقہ اتحادی جماعتوں کو کوسنا بند کرے اور اتنی کیا جلدی ہے۔

ترجمان نے کہا تھا کہ بلاول کو اللہ لمبی عمر دے، وزیراعظم بن ہی جائیں گے، لاڑکانہ کی سیٹ 2018 میں لیول پلیئنگ فیلڈ ہی کی وجہ سے پی پی پی کو ملی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے حق میں ووٹ دیتے وقت فائدہ نظر آیا تو ووٹ دے دیا اور اب انتخابات جلدی کروانے کا واویلا اصل میں انتخابات سے راہ فرار کی طرف پیشں قدمی ہے۔

اسلم غوری نے کہا تھا کہ اپنے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ اور ہمارے موسمی حالات پر تحفظات کی وجہ سے سیخ پا ہونا حیران کن ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے، پی پی بھی تیاری شروع کرے، ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں کہ تیاری کا موقع نہیں ملا۔

’شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، مفتاح اسمٰعیل قومی سطح کے لیڈر نہیں ہیں‘

پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری نے مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے ملک میں نئی پارٹی بنانے کے اعلان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، مفتاح اسمٰعیل قومی سطح کے لیڈر ہیں۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے ایک صنعتکار ہیں لیکن ان کا انتخابی حلقہ کیا ہے؟ کیا وہ بطور قومی لیڈر قابل قبول ہیں؟

نیئر بخاری نے اسی طرح سے مصطفیٰ نواز کھوکھر کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے ہوئے کہا کہ کیا مصطفیٰ کھوکھر صاحب کی بھی قومی سطح پر بطور رہنما کوئی قبولیت ہے؟ کیا آپ ان کا موازنہ میاں نواز شریف یا بلاول بھٹو زرداری یا مولانا فضل الرحمٰن سے کر سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ہی وزیراعظم بنے تھے، شاہد خاقان عباسی کی ذات سے مسلم لیگ (ن) کو مائنس کردیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ کیا ان تینوں شخصیات کا بلاول بھٹو، نواز شریف یا مولانا فضل الرحمٰن سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں ہی گفتگو کے دوران مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نئی پارٹی بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک تجویز ہے کہ انتخابات کے بعد پارٹی کا اعلان ہو، لیکن میرا خیال ہے کہ الیکشن سے پہلے اعلان کرنا چاہیے، اکتوبر میں پارٹی کا اعلان کردیں گے۔

قبل ازیں گزشتہ ماہ ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کے دوران مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ وہ نئی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور نئی سیاسی جماعت میں شمولیت پر سیاستدانوں کو قائل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سابق وزیر اعظم اور رہنما مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی بھی کہہ چکے ہیں کہ ملکی سیاست کو ایک دو نئی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔

شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل متعدد بار مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ہمراہ ’ری امیجننگ پاکستان‘ کے عنوان سے ایک علیحدہ پلیٹ فارم کے تحت متعدد سیمینارز منعقد کروا چکے ہیں۔

پارٹی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے تینوں رہنماؤں کے حوالے سے حالیہ کچھ عرصے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ تینوں جلد ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں