توہین الیکشن کمیشن کیس: عمران خان، فواد چوہدری کو آج بھی پیش نہیں کیا گیا

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2023
فاشعیب شاہین نے عمران خان کو جان بوجھ کر پیش نہ کرنے کا مؤقف اپنایا تو ممبرالیکشن کمیشن شاہ محمد جتوئی بولے پہلے آپ بھی جان بوجھ کر پیش نہیں کر رہے تھے — فائل فوٹو: فیس بُک
فاشعیب شاہین نے عمران خان کو جان بوجھ کر پیش نہ کرنے کا مؤقف اپنایا تو ممبرالیکشن کمیشن شاہ محمد جتوئی بولے پہلے آپ بھی جان بوجھ کر پیش نہیں کر رہے تھے — فائل فوٹو: فیس بُک

الیکشن کمیشن میں توہین کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کو آج بھی پیش نہ کیا گیا۔

ممبر سندھ نثاردرانی کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کی، اسد عمر، شعیب شاہین اور فیصل چوہدری پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی اور فواد چوہدری کو پیش نہ کیا جاسکا۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی شعیب شاہین نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ کیس کے بارے میں تاثر اچھا نہیں جائے گا۔

کمیشن سربراہ نثاردرانی نے رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تاثرکی باتوں کوچھوڑ دیں، ہم قانون کے مطابق کام کریں گے، آپ کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور تعاون بھی نہیں کرتے۔

شعیب شاہین نے عمران خان کو جان بوجھ کر پیش نہ کرنے کا مؤقف اپنایا تو ممبر الیکشن کمیشن شاہ محمد جتوئی بولے پہلے آپ بھی جان بوجھ کر پیش نہیں کر رہے تھے، سوال یہ ہے کہ ہم ان کو یہاں پیش کرنے کا رسک کیوں لیں؟

فواد چوہدری کی نمائندگی کرنے والے فیصل چوہدری نے فواد چوہدری کی اڈیالہ جیل میں موجودگی کا بتایا، انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو کوئی رپورٹ بھی جاری نہیں ہوئی، فواد چوہدری کو بھی پیش نہیں کیا جارہا۔

ممبر خیبر پختونخوا نے کہا کہ فواد چوہدری و دیگر ملزمان ایک ہی جیل میں ہیں، فیصل چوہدری نے کہا کہ باہر سے لگتا ہے ایک ہی جیل ہے، اندر سے مختلف حصے ہیں، ممبر نثار درانی نے کہا کہ چلیں اس پر آرڈر جاری کرتے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ میں توسب سے زیادہ الیکشن کمیشن میں پیش ہوا ہوں اور اب تو سیاست بھی چھوڑ چکا ہوں۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ نہیں، آپ سیاست کریں، اسد عمر شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے اب سیاست چھوڑ چکا ہوں، اسد عمر نے اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا جس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ ہم اس پر آرڈر کر دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 اکتوبر کو اس کیس میں عمران خان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر تے ہوئے انہیں 24 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا جو اس وقت جیل میں بند ہیں۔

تاہم عمران خان کو پیش نہیں کیا جا سکا تھا جس پر کمیشن نے سیکریٹری داخلہ کو 13 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے تو انتخابات کا پُرامن انعقاد کیسے ممکن ہوگا۔

13 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سیکریٹری داخلہ آفتاب درانی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور سابق وزیر اعظم کی عدم پیشی کے حوالے سے تحریری رپورٹ پیش کی۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ سیکیورٹی تحفظات ہیں، کیا جیل میں سماعت نوٹی فائی کر سکتے ہیں؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا تھا کہ اگر آپ جیل میں سماعت کرنا چاہتے ہیں تو ہم نوٹیفائی کر دیتے ہیں، ہم عدالتوں کو اجازت دیتے ہیں، جیل میں سماعت کی جائے۔

دوران سماعت عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری پیش نہیں ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کے معاون وکیل نے پیش ہو کر استدعا کی تھی کہ سابق وزیر اعظم کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، کیس التوا کی درخواست کر تے ہیں۔

قبل ازیں 11 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں، اس لیے وہ الیکشن کمیشن کے مقدمات میں اس وقت تک حاضر نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کے پروڈکشن آرڈرز نہ جاری کیے جائیں۔

19 اکتوبر کو جاری ایک تحریری حکم نامے میں گزشتہ سال اگست سے التوا اِس کیس کا فوری فیصلہ سنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ یہ معاملہ اگست 2022 سے زیر التوا ہے جس کا بلا کسی تاخیر کے فیصلہ کیا جانا چاہیے‘۔

اس میں کہا گیا کہ مدعا علیہ جیل میں ہے اور معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے ملزم کی ذاتی حیثیت میں پیشی لازمی ہے، اس لیے جواب دہندہ عمران احمد خان نیازی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے بینچ نے اپنے دفتر کو کہا تھا کہ وہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ہدایات دیں۔

آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب پولیس سے بھی کہا گیا کہ وہ اس سلسلے میں عمران خان کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائیں۔

پس منظر

گزشتہ سال اگست میں الیکشن کمیش نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو ’اے آر وائی‘ پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں