پشاور ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی لیول پلینگ فیلڈ کی یقین دہانی پر درخواست کو نمٹاتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

گزشتہ سماعت پر پشاور ہائی کورٹ نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دی گئی تو وہ وضاحت کے لیے نگران وزیر اعلیٰ اور چیف الیکشن کمشنر کو طلب کریں گے۔

آج پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی حکومت اور مانسہرہ کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس عتیق شاہ نے سماعت کی۔

چیف سیکریٹری، ایڈووکیٹ جنرل، ڈائریکٹر جنرل لا الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ ایک پارٹی جلسہ کرے تو اس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرتے ہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ اس سیاسی جماعت کی سیاسی بھاگ دوڑ پر پابندی ہے، ایک سیاسی پارٹی جلسہ کرنا چاہے تو دفعہ 144 لگا دی جاتی ہے، باقی سیاسی جماعتوں پر 3 ایم پی او ہے، نہ کوئی اور پابندی، کیا صرف اس پارٹی کے جلسوں کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

چیف سیکریٹری نے کہا کہ سب کو یکساں مواقع فراہم کریں گے، پی ٹی آئی نے کل بھی کنونشن کیا ہے، ایس او پیز اور جگہ کی تعین سے اجازت دیتے ہیں، اے این پی اور جے یو آئی نے ایس او پیز پر عمل نہیں کیا تو اجازت نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ تاثر ختم کرنا چاہیے کہ ایک پارٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جسٹس عتیق شاہ نے کہا کہ اگر عدالت مداخلت نہیں کرتی تو ان کو اجازت نہیں ملتی، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ نے وہ نگران وزرا لگائے جو اب انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان وزرا کو بھی دیکھیں گے، جہاں قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ہم کارروائی کرتے ہیں، جسٹس اعجاز نے کہا کہ شیڈول کب جاری ہوگا، وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ حلقہ بندیاں ہوگئی اگلے ہفتے میں شیڈول جاری کریں گے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ڈسٹرکٹ افسر کو بتائیں کہ کہیں پر ایک پارٹی کو نشانہ بنایا جائے تو مداخلت کریں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ سب جماعتوں کو دی جائے۔

جسٹس عتیق شاہ نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر یہ شور ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ ایک پارٹی کو فراہم نہیں کی جارہی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انٹرا پارٹی کے لیے راتوں رات سیکیورٹی فراہم کی گئی۔

عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی کو ہدایت کی کہ آپ بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، چیف سیکریٹری اور الیکشن کمیشن کی لیول پلینگ فیلڈ کی یقین دہانی پر پشاور ہائی کورٹ نے درخواست نمٹا دی۔

واضح رہے کہ یہ درخواست پی ٹی آئی کے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور، صوبائی قانونی کورآرڈینیٹر مشال اعظم اور انصاف لائرز فورم کے صوبائی نائب صدر ملک ارشد نے دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ متعلقہ افسران بشمول صوبائی چیف سیکریٹری، مانسہرہ کے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اور اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے۔

گزشتہ سماعت پر درخواست گزاروں کی جانب سے وکلا شاہ فیصل، علی زمان، انعام یوسف زئی اور دیگر پیش ہوئے تھے اور بتایا تھا کہ ہائی کورٹ بینچ نے 26 اکتوبر کو پی ٹی آئی کو صوبے بھر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے بعد معاملہ درخواست نمٹا دی تھی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے صوبے میں پی ٹی آئی کو ورکرز کنونشن اور انتخابی مہم چلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن پارٹی کو مانسہرہ کی ضلعی انتظامیہ نے 5 نومبر کو ورکرز کنونشن کے انعقاد کی اجازت نہیں دی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں لیکن اس بات پر اصرار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے قانون کے ’کچھ تقاضوں‘ پر عمل کرنا ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے تھے کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں، اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرر ہی۔

ایڈووکیٹ علی زمان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی تھی جس میں 26 نومبر کو ورکرز کنونشن کے انعقاد کی اجازت مانگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تاہم ڈپٹی کمشنر نے 20 نومبر کو دفعہ 144 نافذ اور 5 سے زیادہ افراد کو جمع ہونے پر پابندی عائد کردی، جس کا مقصد پی ٹی آئی کو کنونشن کے انعقاد سے روکنا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں