’سائفر کے معاملے سے خارجہ تعلقات متاثر، دشمنوں کو فائدہ ہوا‘، تفصیلی فیصلہ

اپ ڈیٹ 01 فروری 2024
تحریری فیصلے کے مطابق تمام دفعات کے تحت دی گئی سزاؤں کی مدت فوری اور ایک ساتھ تصور ہوگی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این
تحریری فیصلے کے مطابق تمام دفعات کے تحت دی گئی سزاؤں کی مدت فوری اور ایک ساتھ تصور ہوگی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان و سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفرکیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق 77 صفحات اور 20 فائنڈنگز پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جج نے لکھا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا، اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں۔

تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا، پراسیکیوشن نے نہ صرف گواہان بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا نے قانون کا مذاق بنایا، سابق وزیرِاعظم اور سابق وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھیں، دونوں نے بطور وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے سائفر وزارت خارجہ کو واپس نہیں بھیجا، سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پراثر پڑا، جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا، پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچایا گیا۔

فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ سائفر کیس کی سماعت کے دوران وکلا صفائی غیرسنجیدہ دکھائی دیے، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا، سائفر کیس تاخیر سے دائر نہیں کیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ دورانِ سماعت عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں، ہمدردیاں لینے کے لیے بے یارو مددگار بننے کی کوشش کی۔

عدالت کی جانب سے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کی ذمے داری تھی کہ بطور وزیراعظم سائفر واپس بھجواتے، اُنہوں نے اب تک سائفر کی کاپی واپس نہیں کی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 تھری اے، دفعہ 5 ون سی، 5 ون ڈی اور 9 کے تحت قصور وار قرار دیتی ہے، دونوں ملزمان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 تھری اے اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 34 کے تحت مجرم قرار دیتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدالت بانی پی ٹی آئی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 تھری اے کے تحت 10 سال قید بامشقت اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 ون سی کے جرم میں 2 سال قید بامشقت، 10 لاکھ جرمانے کی سزا سناتی ہے۔

سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ عدالت بانی پی ٹی آئی کو دفعہ 5 ون ڈی کے جرم میں بھی 2 سال قید بامشقت، 10 لاکھ جرمانے کی سزا سناتی ہے۔

فیصلہ میں بتایا گیا کہ عدالت شاہ محمود قریشی کو بھی 10 سال قید بامشقت کی سزا سناتی ہے، تمام دفعات کے تحت دی گئی سزاؤں کی مدت فوری اور ایک ساتھ تصور ہوگی۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز 31 جنوری کو توشہ خانہ ریفرنس میں بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14،14 سال قید با مشقت کی سزا سنادی گئی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں