اختیار کس کا؟

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بِل کی منظوری دینے میں وفاقی کابینہ کو تین سال کا عرصہ لگا۔
اگرقومی اسمبلی بل کی منظوری دے کر اسے قانون کا درجہ دے بھی دے تو بھی اس خوابیدہ ادارے کو زندگی نہیں مل سکتی، جسے سن دو ہزار نو میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر حکمتِ عملی کی تیاری میں تعاون کی فراہمی اور رابطوں کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
خود مختار حیثیت کے بغیر یہ ادارہ بھی وزارتِ داخلہ کے دیگر حصوں کی طرح غیر موثر رہنے کے ساتھ ساتھ صرف حکمراں جماعت کے وفادار ملازمین کی نئی کھیپ بھرتی کرنے کا ہی موقع دے سکے گا۔
نیکٹا بل کے اصل مسودے کے تحت وزیراعظم کو اس کا انچارج ہونا تھا تاہم نئے مسودے میں اس کا اختیار وزارتِ داخلہ کے سپرد کرنے کا ذکر ہے۔
اس سے نہ صرف نیکٹا کو حاصل نہایت کم خود مختاری کا بھی خاتمہ کیا گیا بلکہ وزیراعظم کی سربراہی کے بغیر، دہشت گردی کے مقابلے کے لیے قائم کردہ ادارے کی اہمیت بھی گھٹ کر عام سرکاری محکمے جیسی ہو کر رہ جائے گی۔
یہ رویہ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر پہلے سے ہی ہمارے کمزور موقف پر ایک اور دھچکے سے کم نہیں ہے۔
نیکٹا کو سن دو ہزار نو میں ایک انتظامی حکمنامہ کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔ اس کی تشکیل کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ادارہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی موثر روک تھام کے لیے متعدد سول اور فوجی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان معلومات کے تبادلوں اور موثر رابطوں کا فریضہ انجام دے گا۔
ساتھ ہی یہ بھی مقصد تھا کہ ادارہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے لیے بطور تھنک ٹینک بھی کام کرے گا۔ جس کے تحت وہ ریسرچ کرے گا، ملک میں بڑھتی عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیےاقدامات تجویز کرسکے گا۔ نیز، تمام شراکت داروں کے ساتھ رابطوں کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر حکمتِ عملی وضع کرسکے گا۔
نیکٹا کی ایک اہم ذمہ داری ایسے ڈیٹا بیس کی تیاری تھی، جہاں نہ صرف تمام متعلقہ معلومات دستیاب ہوتیں بلکہ وہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں، نیز ان کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتا اور ان کے حوالے سے تمام تر خفیہ معلومات کا حصول بھی ممکن بناتا۔
مگر اندرونی خلفشار اور متعدد شراکت داروں کے مابین عدم تعاون کے سبب نیکٹا اپنے مقصد کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں کرسکا۔
پاکستان اس وقت بڑا میدان جنگ بن چکا ہے۔ القاعدہ اور اس کے دیگر عسکریت پسند اتحادی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران ہزاروں لوگ ان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، ایسے میں اس طرح کے ادارے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔
ملک کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کےباعث، عسکریت پسندوں کے لیے ریکروٹس کی سپلائی بنا تعطل جاری ہے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت نے ملک کو مقتل بنا کر رکھ دیا ہے۔
مذہبی بنیادوں پر جاری فرقہ وارانہ تشدد نہ صرف پاکستانی سماج کا شیرازہ بکھیر دے گا بلکہ اس سے ملک میں مذہبی خانہ جنگی شروع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔
بڑھتے ہوئے تشدد، شدت پسندی اورعسکری بغاوت سے نمٹنے میں پاکستان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ خطرے کے بارے میں واضح تصور اور اس سے نمٹنے کے لیے صلاحیتوں اور حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔
ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والے اداروں آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر پولیس و سویلین ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور رابطوں کا فقدان ہے۔
بڑھتی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کسی موثر اور واضح حکمتِ عملی کی غیر موجودگی کے باعث ہر ادارہ اپنی صوابدید کے مطابق، اپنی ہی دائرے میں خود کو محدود کرکے مصروفِ عمل ہے۔
دہشت گردی اورعسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مربوط اور موثر حکمت عملی کے فقدان سے ان عناصر کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول میسر آیا ہے۔
اس وقت پاکستان کو ان عناصر کے خلاف سخت ترین اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن سیاسی عدم آمادگی اور بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان اس معاملے پر اتفاقِ رائے کے فقدان نے بھی ان عناصر کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کے لیے موثر حکمتِ عملی کے نہ ہونے کے باعث خود فوج کے لیے قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خواہ میں ان عناصر کے خلاف جاری مہم کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
اگرچہ ان دونوں میں فرق ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں لڑنے والی فوج کے پاس ایسا ایکشن پلان موجود نہیں، جس کے تحت وہ دہشت گردوں کے اُن نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ سکیں جو وہاں بیٹھے بیٹھے ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی اورعسکریت پسندی کو کنٹرول کررہے ہیں۔
رابطوں کے فقدان کے باعث ہی عسکریت پسندوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ گرفت میں آئے بنا ایک حصے سے دوسرے کی طرف آزادانہ نقل و حرکت کررہے ہیں۔
منتخب سویلین حکومت کی جانب سے نیکٹا جیسے ادارے کے بارے میں فیصلہ قیام درست سمت میں اچھا قدم ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی سرکوبی کے لیے اداروں کے درمیان موجود خلا پُر کرنا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یورپی یونین سمیت مختلف ملکوں سے بھاری فنڈز کی فراہمی اور بھاری رقوم خرچ کردینے کے باوجود، اب تک منصوبے کے مقاصد پرعملی پیشرفت نہیں کی جاسکی۔
قیام کے تین سال گذرنے کے باوجود اس ادارے کو چلانے کے لیے درکار قانونی فریم ورک نہ ہونے کے سبب یہ غیر موثر ہے۔ قانون سازی کے علاوہ تاخیر کا ایک اور بڑا سبب اس پر کنٹرول کا معاملہ بھی ہے۔
رحمان ملک اسے اپنی وزارتِ داخلہ کے ماتحت دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ دیگر شراکت دار بالخصوص آئی ایس آئی، آئی بی اور پنجاب کے لیے یہ انتظام قابلِ قبول نہیں۔
حتیٰ کہ نیکٹا کے بعض اعلیٰ افسران کا بھی خیال ہے کہ وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے سے ادارے کی خود مختاری اور پیشہ ورانہ مقاصد پر زد پڑے گی اور وہ کمزور ہوسکتے ہیں۔
ویسے بھی یہ تُک نہیں بنتی کہ ادارے کو تو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کردیا جائے اور اس کے جو شراکت دار ہیں وہ وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہوں۔
یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ اگر ادارے کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کیا گیا تو نہ آئی ایس آئی اور نہ ہی آئی بی اس سے تعاون پر رضامند ہوں گے۔
حکومت اور فوج کے درمیان پایا جانے والا عدم اعتماد بھی اس ادارے میں آئی ایس آئی کی عدم دلچسپی کا ایک سبب ہے۔
نیکٹا پر کس کا کنٹرول ہوگا؟ اس بات پر رسّہ کشی، اس ادارے کو مکمل طور پر مفلوج بنادے گی۔
سن دو ہزار نو میں تشکیل کے بعد سے اب تک کے تین سالوں کے دوران اس کے چھ کوآرڈینیٹر مقرر کیے جاچکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ سے اختلافات کے سبب انہوں نے استعفے دیے یا پھر حکومت نے انہیں گھر بھیج دیا۔
افسران کی میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگیوں پر بھرتی نے بھی ادارے کے پیشہ ورانہ بنیادوں پر استحکام اور اس کے موثر ہونے پر سنگین تحفظات پیدا کردیے ہیں۔
نیکٹا پر گزشتہ تین سالوں کے دوران پانچ سو ملین روپے خرچ ہوئے لیکن اس بھاری خرچ سے جو نتائج حاصل ہوئے وہ نیکٹا کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت کابینہ سے منظور کردہ نیکٹا بل کو، بطور قانون منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں بھیجنے سے پہلے ایک بار پھر اس پرنظر ثانی کرلے۔
اس وقت دہشت گردی اور شدت پسندی ملک کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکٹا جیسے ادارے کی جس شدت سے ضرورت آج ہے، وہ پہلے کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی۔
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کردے۔
مضمون نگار صحافی و مصنف ہیں۔
zhussain100@yahoo.com | Twitter: @hidhussain
ترجمہ: مختار آزاد