قادری عوامی غیض وغضب کے نمائندہ؟

شائع January 18, 2013

اسلام آباد: ڈاکٹر طاہر القادری کی حامی خواتین نعرے لگا رہی ہیں۔—اے پی
اسلام آباد: ڈاکٹر طاہر القادری کی حامی خواتین نعرے لگا رہی ہیں۔—اے پی

ڈاکٹر طاہر القادری کا 'عوامی انقلاب' تو شاید نہ آ سکا لیکن پچھلے کچھ دنوں میں پیش آنے والے واقعات نے  سیاسی منظر نامے کو نمایاں طور پر بدل دیا ہے۔

اسلام آباد میں لانگ مارچ نے تمام سیاسی قوتوں کو نظام کے دفاع کے لیے متحد کر دیا۔

اگر آئندہ عام انتخابات کے شیڈول کا جلد ہی اعلان کر دیا جاتا ہے تو امید ہے کہ پچھلے چند ماہ سے ملک میں جاری غیر یقینی صورتحال کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

بہرحال، دارلحکومت میں ایک علامہ کی قیادت میں بے مثل دھرنے نے سیاسی منظر نامے پر  گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور اس کے اثرات تادیر قائم رہیں گے۔

مایوس تنقید نگار یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ لانگ مارچ مغرب یا پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جمہوری عمل کو پٹری سے اتارنے کی ایک گہری سازش تھی۔

لیکن ڈاکٹر قادری کا تبدیلی کے مطالبہ موجودہ ملکی حالات کی وجہ لاتعلق عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔

شدید سردی میں اسلام آباد پر کئی دنوں سے موجود ہزاروں خواتین اور مردوں کو آپ محض ایک شیخ طریقت  کی اندھی تقلید کرنے والے مریدوں کا خطاب  دے کر انہیں نظرانداز نہیں کر سکتے۔

اس چار روزہ دھرنے سے اٹھنے والی آواز بہت گہری اور اثرانگیز ہے۔ یہ معاشرے میں موجود سماجی، معاشی اور بڑھتی سیاسی خلیج کو سامنے  لانے میں کامیاب رہا ہے۔

گزشتہ مہینے گویا پیرا شوٹ کے ذریعے پاکستان کے سیاسی میدان میں اترنے والے علامہ ناصرف خود تنازعات کا شکار ہوئے بلکہ ان کے ایجنڈا کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔

اور اگر ان کے ماضی کو دیکھا جائے تو یہ قیاس آرائیاں کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھیں۔

ماضی میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعلق اور سیاسی اور مذہبی معاملات پر ان کے تبدیل ہوتے موقف نے بالکل جائز طور پر ان کے مقاصد اور ایجنڈے  پر سوالات  کھڑے کیے۔

لاہور میں شاندار استقبال کے بعد سے ڈاکٹر قادری نے میڈیا کوریج کے ذریعے ملک کو 'یرغمال' بنا رکھا تھا۔

ایک اور اہم سوال یہ تھا کہ آخر ان میں اپنے پہلے ہی جلسے میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کرنے کا اعتماد کہاں سے آیا۔

یہ درست ہے کہ ڈاکٹر قادری لاکھوں شرکاء کو اسلام آباد لانے اور حکومت گرانے کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے،  تاہم انہوں نے مارچ کے ذریعے اپنی طاقت کا بھر پور اظہار کیا جس کے بعد ہی حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے میں مجبور ہوئی۔

مارچ کے شرکاء بہت منظم اور پڑھے لکھے تھے ان کے بارے میں یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں مارچ میں شرکت کے لیے 'ہانکا' گیا۔

لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یہ تعلیم یافتہ شرکاء اس بات کا شعور رکھتے تھے کہ آخر وہ اسلام آباد میں کیوں موجود ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرکاء کی ایک بڑی تعداد منہاج القران سے وابستہ تھی، لیکن وہاں موجود لوگوں سے انٹرویوز سے پتا چلتا ہے کہ مارچ میں وسطی اور شمالی پنجاب سے اسکول ٹیچرز، مختلف شعبوں میں ملازمتیں کرنے والے، ، طالب علم اور کاروباری لوگ بھی شامل تھے۔

دوسری سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف سے مایوس افراد بھی اس دھرنے میں دیکھے جا سکتے تھے۔

دھرنے کی سب سے متاثر کن بات اس میں پڑھی لکھی خواتین کی شرکت تھی۔ یہ باہمت خواتین سخت موسم اور دہشت گردی کے خطرے کے باوجود ثابت قدم رہیں۔

اس لانگ مارچ میں مذہبی عنصر نے اہم کردار ادا کیا ہو گا لیکن یہ بڑھتا ہوا معاشی دباؤ، گیس کی قلت، اور بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال تھی جس نے شرکاء کو تبدیلی کی امید کے ساتھ ا س میں  شامل ہونے پر مجبور کیا۔

یہ مارچ مڈل کلاس طبقہ کا حکمران اشرفیہ سے اظہارلاتعقلی بھی تھا۔

ڈاکٹر قادری مسیحا تو ثابت نہ ہوسکے لیکن ان کا جوش خطابت کا انداز مسیحا کے بے تابی سے منتظر لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔

سحر انگیز شخصیت کے حامل ڈاکٹر قادری نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی جذبات سے کھیلنے کے فن میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔

ان نے اپنی طویل تقریروں کے ذریعے ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی جو کئی کئی گھنٹے تک بغور ان کو سنتے رہے۔

خواتین اور مردوں کا شدید بارش میں بھی سکون اور تحمل سے اپنے رہنما کی تقریریں سنتے رہنے کا منظر بے مثل  تھا۔

یقیناً اس میں ڈاکٹر قادری کی پُر اثر شخصیت کا بھی کمال تھا لیکن اس بھی اہم لوگوں کا ان پر بھرپوراعتماد تھا کہ وہ اپنے تبدیلی کے وعدے پر پورا اُتریں گے۔

تاہم نتائج سے لگتا ہے کہ ان کی یہ اُمیدیں غلط تھیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان سے سیاسی میدان مارنے میں کامیاب رہے۔ عمران خان کا ہر وقت تبدیل ہوتا رویہ اور ان کے سیاسی  خیالات کا واضح نہ ہونے سے انہیں حالیہ مہینوں میں نقصان پہنچا ہے۔

جہاں ایک طرف عمران خان دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی پر متضاد رویہ اختیار کرتے رہے وہیں ڈاکٹر قادری نے عام لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے ان دونوں مسائل پر ایک واضح اور مضبوط موقف اختیار کیا۔

اسلام آباد میں ڈی چوک پر دھرنے نے ڈاکٹر قادری کو یقینی طور پر اور زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔ لیکن اب ہمیں ان کے اگلے قدم کا انتظار کرنا ہو گا۔

ان کا ایجنڈا تو شاید واضح نہیں لیکن ان کی تقریروں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ سے اپنی حمایت مانگتے نظر آتے ہیں۔

اسی وجہ سے ان افواہوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ ساز باز ضرور موجود ہے۔

یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ ان کی سیاسی جماعت عوامی تحریک اب انتخابات میں بھی حصہ لے، لیکن ان کے تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

ایک نئی سیاسی بساط بچھ چکی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ismail malik Jan 18, 2013 07:08am
Islamabad agreement between Qadri and his today's friends and yesterday Yazid. 1)Election before 16 march#2) election will be held in 90 days#3) Preclearance in 30 days, one month before election ...... dissolution of election commission will be discussed later etc..... plz answer these question ,they solved terrorism Issue ? jobs issue? Electricity and gass load-shading? etc if not so why and who supported this corrupt and laier,,,,

کارٹون

کارٹون : 9 جولائی 2025
کارٹون : 8 جولائی 2025