فائل فوٹو --.

بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کی ہلاکتوں کے خلاف جو دھرنے جگہ جگہ کئے گئے اس کی واضح خصوصییت یہ تھی کہ ان دھرنوں میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا-

جب شیعہ اور ہزارہ کمیونٹی کے رہنماؤں نے منگل کی رات کو احتجاج ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو نوجوانوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنے موقف میں تبدیلی کیلئے بڑی تگ و دوکے بعد تیار ہوئے-

یہ بات، کہ وہاں پر موجود تقریبا تمام ہی نوجوانوں کا پرزورمطالبہ تھا کہ کوئیٹہ شہر کو مکمل طور پر فوج کے کنٹرول میں دے دیا جائے، خاصی تشویشناک ہے لیکن غیر متوقع نہیں-

پاکستان کے نوجوانوں کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں ریاستی امور میں نسبتاً کم دلچسپی ہے- ان میں عام رجحان یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں محب وطن عناصر کے ساتھ اشتراک کرنے کو تیاررہتے ہیں- ہزارہ جیسی نسبتاً الگ تھلگ رہنے والی کمیونٹی کا عالمی نقطہء نظرسادہ، غیر پیچیدہ، بالکل "سیاہ یا سفید" جیسا ہے جو کوئی ایسی حیرت انگیز بات بھی نہیں ہے-

گو کہ دھرنے میں حصہ لینے والے تمام نوجوان مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ فوج کو بلایا جائے، ان کی مایوسی میں سیاسی اثرونفوذ صاف صاف نظر آرہا تھا-

نوجوانوں کا یہی وہ طبقہ ہے جو اس اجتماعی صدمے کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ہزارہ کمیونٹی کو گزشتہ چند ماہ کے دوران گزرنا پڑا اور یہی وہ نوجوان ہیں جن کی سیاست آنے والے دنوں میں اپنا رخ متعین کریگی-

یقیناً آج کے پاکستان میں یہی نوجوان ناگزیر طور پر اس طبقہ کے نظریات کو آگے بڑھائنگے جن سے ان کا تعلق ہے خواہ وہ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں-

ہزارہ شیعہ کے تعلق سے --جو نسبتاً تعلیم یافتہ افراد کی کمیونٹی ہے اور مروجہ معاشی اور سیاسی اداروں سے منسلک ہے-- نوجوان اپنی "خاموش وطن پرستی" پر از سر نو غور کرنے پر مجبور ہوجائینگے، اگر وہ خطرناک صورت حال ختم نہیں ہوتی جس سے وہ دوچار ہیں- چونکہ نوجوان ہزارہ کو میڈیا تک رسائی کے وسیع مواقع حاصل ہیں وہ اپنی کمیونٹی کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی پوزیشن کی نمائندگی کر سکتے ہیں-

پاکستان کے اندراگر دیگر ہمعصر قومی تحریکوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو --جن میں سے اکثر کی"وطن دشمنی" کی طویل تاریخ ہے-- اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان مرکزی رول ادا کر سکتے ہیں-

فی الحقیقت یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ جاگیردار اور زمیندار طبقات اور "بزرگ" جن کی ماضی کی تحریکوں پر عملًا اجا رہ داری تھی اب سرعت کے ساتھ اس نوجوان نسل کے ہاتھوں اپنی آب و تاب کھو رہے ہیں جو عالمی سطح پر ایک دوسرے سے جڑتی نظر آتی ہے-

اس کی واضح مثال یہ ہے : موجودہ بلوچ قومی تحریک کے لب و لہجہ اور روش کو متعین کرنے میں اس کے نوجوانوں کا رول بڑھتا جا رہا ہے- بلوچستان کے اسکول، کالج اور یونیورسیٹیاں، یا کم از کم اس صوبہ کا بلوچ اکثریت کا علاقہ قوم پرستی کی سیاست کا گڑھ بنتا جا رہا ہے- یہی وہ گڑھ ہیں جہاں سے شدت پسند اپنی قوت حاصل کرتے ہیں-

اسی طرح کشمیری، سندھی بلکہ سرائیکی قوم پرستی کا کا انحصار بھی نوجوانوں پر ہے- اگرچہ کہ ان کی قوم پرستی اتنی انتہا پسندی کی حامل نہیں ہے جتنا کہ بلوچ قوم پرستی لیکن ہزارہ قوم پرستی کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسند ہے-

دریں اثناء، اگرچہ اس تحریک کا مقصد مکمل طور پرتخریبی نہیں ہے، لیکن نوجوان انقلابی نظریات کی جانب مائل ہیں، خواہ ان کی نوعیت کچھ ہی کیوں نہ ہو- ایک ایسے ملک میں جہاں دو تہائی آبادی کی عمر 23 سال سے کم ہے اور اس طبقہ کے شکست و ریخت سے دوچار مروجہ سیاسی اور معاشی اداروں میں ضم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں-- ریاستی تشدد کی مزاحمت تو بہت دور کی بات ہے- ان حالات میں آزادی کے پرکشش نظریات کی جانب ان کا مائل ہونا قطعی طور پر حیران کن نہیں-

سیاسی تحریکوں میں نوجوانوں کے اس بڑھتے ہوئے رول کی وجہ محض پاکستان کا موجودہ بحران نہیں ہے- دنیا بھر کا وہ نوجوان طبقہ جو نئی ٹیکنولوجیز کے ذریعہ سماجی اور دیگر اقسام کی تقسیم کے درمیان حائل خلیج کو پاٹ سکتا ہے وہ مختلف قسم کے معاشرتی اور عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں پیش پیش ہے-

شمالی امریکہ اور یورپ میں قبضہ کرنے کی تحریک ( آکوپائی موومنٹ)، چلی میں انتہا پسند طلباء کی تحریک اور عرب "انقلابات" جو گزشتہ دو برسوں میں رونما ہوئے ہیں اس کی واضح مثال ہیں-

یہ کوئی ضروری نہیں کہ نوجوان --کسی دوسرے سماجی گروپ کی طرح-- کسی بھی ترقی پسند سیاسی نظریہ یا تحریک کے ساتھ وابستہ ہو جائیں- قوم پرستی کی تحریکوں کے معاملے میں، جیسا کہ میں اوپر بھی کہہ چکا ہوں ان کی بنیادی وفاداری خود اپنی نسلی-قومی کمیونٹی کی "آزادی" سے وابستہ ہے-

موجودہ پاکستان میں نوجوان مختلف قسم کی سیاسی تحریکوں اور تنظیموں کی جانب راغب ہو رہے ہیں جس میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جیسی رائٹ-آف-سنٹر کا رجحان رکھنے والی جماعت بھی شامل ہے -

نوجوان جہادی تشدد پسند تنظیموں کی جانب بھی مسلسل دھکیلے جا رہے ہیں جس کی وجہ ریاستی آئیڈیالوجی کے علاوہ وہ تعلیمی اور بہبودی ادارے ہیں جنھیں دائیں بازو کی مذہبی تنظیمیں چلا رہی ہیں-

پاکستان کی موجودہ تحریکوں کے درمیان اگر کوئی مشابہت نظر آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مصنوعی اور مخصوص شناختوں کے گرد اکٹھا کیا جا رہا ہے-

اس کے برعکس، ماضی میں نوجوان ان تحریکوں کی جانب زیادہ مائل ہوتے تھے جو طبقاتی جدوجہد اورسامراج دشمنی کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتی تھیں-

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم پاکستان میں چلنے والی تحریکوں کا مقابلہ دنیا کی دوسری تحریکوں سے کریں جنکا میں ذکر کر چکا ہوں، تو انکی ماہیت اور مقاصد میں واضح فرق نظر آتا ہے-

لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ایک تحریک دوسری تحریک کے مقابلے میں زیادہ یا کم جواز رکھتی ہے- لیکن اس سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان کے خصوصی تناظر میں کون سے نظریات حرکت پزیر ہیں-

دراصل، پاکستان میں نسل پرستی اور مذھب (یا فرقہ) کو ابتدا ہی سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اس کی وجہ پاکستانی قوم پرستی ہے --جو آج بھی موجود ہے-- جسے اسلام کے گرد تعمیر کیا گیا- جنرل ضیاء الحق کے تاریک دور کے بعد سے ان شناختوں کا رول اور بھی گہرا ہو گیا ہے-

نسلی-قوم پرستی کی تحریکیں عموماً مذہبی تحریکوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی پسند رجحانات کی حامل ہوتی ہیں، لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں بہ حثییت مجموعی پاکستان میں سیاست کی سمت متعین کرنے میں کامیاب نہیں رہیں-

چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوجوان جو اس سیاسی شناخت کے خدوخال متعین کررہے ہیں وہی فیصلہ کن رول ادا کرینگے --شعوری یا غیر شعوری طور پر-- اور اس ملک کے مستقبل کا تعین کرینگے-

صرف وقت ہی بتاسکتا ہے کہ آیا سماج کا یہ نسبتا تعلیم یافتہ طبقہ اس نسلی اور فرقہ واریت کی خلیج کو پاٹ سکتا ہے جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، یا پھر اسکے برعکس نادانستہ طور پر طویل المدت ریاستی حکمت عملی کا کل پرزہ بن جائیگا جو تنگ نظر علاقائی نظریات کی سرپرستی کر رہی ہے-

کم سے کم یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ نوجوان بالاخر "محبّان وطن" کے نظریے کی سچائی کو ثابت کر دینگے جس سے محبت کرنے کی انھیں ہمیشہ تعلیم دی گئی- حقیقت میں میں یہ امید کرنا چاہونگا کہ آج کی دنیا کے نوجوانوں کو اب بھی ان مخصوص سیاسی نظریات کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے جوظلم واستبداد کی تمام شکلوں کو مسترد کرنے پر زور دیتے ہیں جس میں سرمایہ دارانہ سامراج کے وہ ادارے بھی شامل ہیں جو ہمیں تقسیم بھی کرتے ہیں اور متحد بھی کرتے ہیں-

لیکن صرف امید ہی کافی نہیں- صرف تاریخ ہی ثابت کریگی کہ آیا ہمارے نوجوان اپنی پرعزم رجائیت پسندی سے ذہنی مایوسی کو شکست دینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں-


 ترجمہ . سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں