پرویز مشرف حاضر ہو
بچپن میں جب ہم دیکھتے تھے کہ گھر کے بڑے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں تو ہم نہایت چالاکی کے ساتھ اپنی کاروائیاں کر جاتے اور کبھی پڑوس کی چھت سے کوئی کٹی پتنگ اٹھا لاتے یا پیچھے والے گھر میں لگے آم کے درخت کی کیریوں پر ہاتھ صاف کر دیتے۔ ایسی ہی چالاکی سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے چپکے سے پاکستان تشریف لا کر کی جسے کسی نےنوٹ تک نہیں کیا۔
ہمارے ہر دم چوکنا رہنے والے میڈیا نے جو کسی پٹاخے کو بھی بریکنگ نیوز بنا دیتا ہے، مشرف کی واپسی پر خاص توجہ نہیں دی۔ توجہ دیتے بھی کیسے سابق صدر کی آمد سے ایک دن پہلے تک عمران خان کے مینار پاکستان کے جلسے کا چرچا تھا اور چوبیس مارچ کو الیکشن کمیشن نے نگراں وزیر اعظم کا اعلان کر دیا۔ اب میڈیا کے پاس مشرف کی واپسی سے زیادہ بڑی اور سنسنی خیز خبریں تھیں۔
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف جب کراچی پہنچے تو کسی بڑے عوامی اجتماع نے ان کا استقبال نہیں کیا۔ نا ہی زمین پھٹی اور نا ہی آسمان ٹوٹا، لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ تھی مشرف صاحب کے ائیر پورٹ سے ان کی رہائش گاہ تک جانے والے قافلے کی۔ صحیح کہتے ہیں زندہ ہاتھی لاکھ کا ہوتا ہے تو مردہ سوا لاکھ کا۔ ہمارے یہاں حاضر جنرل کی جو شان ہوتی ہے وہ تو ہوتی ہے لیکن ریٹائرڈ جنرل کی شان بھی دیکھنے والی تھی۔ مشرف کے قافلے میں سیکورٹی کی گاڑیوں کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ صدر یا وزیر اعظم کے پروٹوکول سے کم تھیں۔
تو کہاں گئے وہ سیاستدان اورسیاسی تجزیہ نگار جو کہتے تھے پرویز مشرف اب کبھی پاکستان واپس نہیں آسکتے۔ اور اگر آئے بھی تو عدالت سیدھا انہیں پھانسی کے تختے پر لٹکا دے گی۔ اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان کے غیور عوام خود یہ عمل اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
میں سلام کرتا ہوں ان نادیدہ قوتوں کو جنہوں نے پرویز مشرف کی واپسی کے لئے گرین سگنل دیا وہ بھی ایسے موزوں وقت جب ملک کی منتخب حکومت سابقہ ہو چکی تھی اور نگراں حکومت نے ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔
مشرف کی واپسی کے بارے میں اٹھنے والے سارے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ وہ سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں، جنہوں نے مل کر پرویز مشرف کو ونش کردار بنا دیا تھا جو پاکستان کی تمام تباہی اوربربادی کا ذمہ دار ہے، اپنے اپنے جوڑ توڑ میں لگے ہوئے تھے۔
انہیں مارچ سے پہلے پہلے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع کرانے تھے۔ مشرف صاحب کی طرف کون توجہ دیتا۔ تو پھر ہماری عدالتیں کیا کر رہی تھیں پرویز مشرف صاحب نے تو سیدھے سیدھے اپنی قبل از گرفتاری ضمانت کروالی۔ عدالتوں کا کام ختم۔
اگر ہمارے یہاں صدور، وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ یا گورنر حضرات کے نام سے قبل سابق لگ جائے تو وہ آدمی عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ اور کچھ ہی دنوں بعد اس کے نام کے آگے لاحقہ مرحوم بھی لگ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے جنرلوں کا معاملہ اور ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پہلے اعلیٰ عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں یا سیدھے عوامی عدالت میں جا کر خود کو بے گناہ ثابت کروانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ملک کے دوسرے حصوں کا تو ہمیں اندازہ نہیں لیکن کراچی میں ہر دوسرا پڑھا لکھا آدمی پرویز مشرف کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ اب یہ بات اور ہے کہ یہ حضرات اپنے نجات دہندہ کو پہلے ان پر چلنے والے قتل کے مقدمات سے نجات دلاتے ہیں یا نہیں۔
بقول پرویز مشرف وہ پاکستان واپس آکر اپنی سیاسی جماعت اور عوام کو متحرک کرنا چاہتے ہیں عوام ان کی واپسی پر متحرک تو نہیں متحیر ضرور ہے۔
حالیہ ہونے والے سروے میں مشرف صاحب کی آل پاکستان مسلم لیگ کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا قائد، ان کا لیڈر ایک عرصے سے ملک سے باہر تھا اور اب وہ آکر عوام میں ایک نیا صور پھونک دے گا۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو نے عوام پر کون سا صور پھونکا تھا جو دونوں دفعہ جلا وطنی کے بعد ان کے استقبال کے لئے آنے والے اجتماع نے اپنے سے پہلے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
اس راز کو جاننے کے لئے اور عوام کے دل کی دھڑکن سننے کے لئے پرویز مشرف صاحب کو مراعات یافتہ طبقے سے نکل کر ٹوٹی جوتی، اور پھٹے کرتے والی عوام کے درد کو محسوس کرنا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک بار کسی کو لیڈر قبول کر لیں تو پھر ان کے لئے اپنی زندگی تو کیا جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں