پہلی نگاہ میں انتہائی نرمی سے گفتگو کرنے والی، ڈاکٹر روتھ فاؤ اسی کے پیٹھے کی نہایت نازک خاتون معلوم ہوتی ہیں- جب وہ تبدیل شدہ زندگی کے بارے میں واضح اور شستہ انداز میں یاد کرتی ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کہانی کسی معمولی محبت کی نہیں -- یہ تو سکردو سے گوادر تک پھیلی محبت ہے۔

پی اے سی سی کے قصہ خوانی کی تقریب کے دوران، ان کے مختصر سے انٹرویو کے دوران ایک بات تو یقینی تھی، میری ملاقات میرے ہیرو سے ہو گئی تھی۔

تاہم ان کے ساتھ اس مختصر ملاقات نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس خاتون کی زندگی کا گہرائی سے جائزہ لوں جس نے اپنی زندگی کے پچاس سال، پاکستان میں جذام/کوڑھ کے خلاف جنگ میں وقف کر دیے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ پی اے سی سی کے قصہ خوانی کی تقریب کے دوران۔-  ماہ جبین منکانی فوٹو
ڈاکٹر روتھ فاؤ پی اے سی سی کے قصہ خوانی کی تقریب کے دوران۔- ماہ جبین منکانی فوٹو

لہٰذا پچھلے ہفتے میں اور میرے ایک ساتھی نے صدر، کراچی میں واقع میری ایڈیلیڈ سینٹر (ایم اے ایل سی) کا دورہ یہی کام کرنے کے لئے کیا۔

اسپتال کے اندر، ہمیں ایڈمنسٹریشن بلڈنگ کی بل کھاتی سیڑھیوں کی جانب ہماری رہنمائی کی گئی، جہاں دیوار پر ان کی تصویریں آویزاں تھیں- ان طاقتور تصویروں کے سحر میں کھو کر میں دو بار لڑکھڑائی، جس نے میرے اندر ان سے ملاقات کرنے کی خواہش مزید بڑھ گئی اور مجھے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ آگے ایسے بہت سی حیران کر دینے والی چیزیں میری منتظر ہیں، لہٰذا میں نے اپنی رفتاز بڑھا دی۔

اس قدیم ماحول میں کام کرنے والے، اسپتال کے لوگوں میں مجھے ایک گہری وابستگی کا احساس ہوا۔

آخر کار، ڈاکٹر فاؤ کے پرائیویٹ چیمبر پہنچنے کے بعد، ہمیں انتظار کرنے کا کہا گیا- ہم نے اس موقع کو انٹرویو کے لئے جگہ تیار کرنے کے لئے استعمال کیا- تیاری کے دوران میں نے ان کے کمرے پر ایک نگاہ دوڑائی- ایک سنگل بیڈ اور چھوٹی سی ڈیسک سے بھری چھوٹی سی جگہ دیکھ کر میں دنگ رہ گئی- مجھے فوراً اس بات پر ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی کہ طالب علمی کے دور میں جس ماچس کی ڈبیہ کے سائز کے کمرے میں رہا کرتی تھی اس کے بارے میں، میں نے کبھی شکایات کی ہوگی۔

چند منٹوں بعد، سفید شلوار قمیض پر فیروزی دوپٹہ اوڑھے ڈاکٹر فاؤ نمودار ہوئیں جو ان کے نازک اور دبلے پتلے فریم اور چاندی جیسے مگر چھوٹے بالوں پر بہت جچ رہا تھا- جب انہوں نے ویڈیو انٹرویو کے لئے فیروزی دوپٹے کو گہرے نیلے رنگ کے دوپٹہ سے تبدیل کیا تو میں اپنی مسکراہٹ چھپائے بنا نہ رہ سکی۔

اس کے بعد، جب وہ اپنی سیٹ پر سیٹل ہوگئیں، تو ہم نے جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کے ابتدائی دنوں کے بارے میں بات چیت شروع کر دی اور یہ کہ وہ کیسے پاکستان آئیں- اپنی یاداشت پر زور ڈالتے ہوئے، کئی بار وقفے لینے کے بعد، انہوں نے بتایا کہ کیسے راہباؤں کی ایک جماعت، ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری، جس کی وہ رکن ہیں، نے طالب علموں کی طبی خدمت کے لئے انہیں یہاں 1960 میں بھیجا- اس وقت ان کا ارادہ تھا کہ وہ ہندوستان بھی جائیں گی تاہم قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا- جب انہوں نے پاکستان میں لیپروسی کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو انہیں معلوم ہوگیا کہ یہی ان کا گھر ہے۔

ڈاکٹر فاؤ اپنے مریضوں کے ساتھ۔- بشکریہ فوٹو گریب
ڈاکٹر فاؤ اپنے مریضوں کے ساتھ۔- بشکریہ فوٹو گریب

ڈاکٹر فاؤ نے جذام کے مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے پاکستان کے مختلف حصوں کا دورہ کیا- اس سفر کو انہوں نے بہت زیادہ انجوائے کیا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کی حالت میں بہتری کی جانب واضح فرق دکھنا شروع ہوگیا- 1996 میں، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو، ایشیا کے ان اولین ملکوں میں سے ایک قرار دیا جہاں جذام پر قابو پا لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا 'ہر مریض کی اپنی زندگی کی کہانی ہے اور ہمیں ان سب کی مدد کر کے مزہ آتا ہے'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں انتخاب کا موقع دیا جائے تو کیا وہ کسی اور ملک میں کام کرنا چاہیں گی تو ان کا فوری جواب تھا 'نہیں- اپنی زندگی میں اگر میں کوئی چیز ٹھیک کرنا چاہوں گی تو بس میں اتنا چاہوں گی کہ کاش میں جب پاکستان آئی، اس سے تین سال پہلے آ جاتی'۔

پاکستان میں اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، میں اس بات کو نظر انداز نہیں کر پائی کہ اس ملک کے بارے میں کتنی پرامید ہوں- ان دنوں لیونگ رومز میں باتیں بگھارنے والوں کی منفی داستان اور سوچ کے مقابلے میں یہ تبدیلی تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوئی۔

بعد میں چائے کے دوران، ایم اے ایل سی کے ایک ملازم، مسٹر حیدر نے ہم پر اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان کے بارے میں ان کے مثبت آؤٹ لک کے باوجود ایسے موقعے بھی آئے جب ڈاکٹر فاؤ کا خیر مقدم نہیں کیا گیا- انہوں نے پاکستان کے ایسے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا جہاں جذام کے مریضوں کے لئے کوئی بھی طبی سہولیات موجود تھیں اور جہاں اگر وہ خواتین مریضوں کا معائنہ کرتیں تو لاٹھی بردار مردوں کی جانب سے انھیں دھمکایا گیا۔

مسٹر حیدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم اے ایل سی پر کڑے وقت بھی آئے جب ڈاکٹر فاؤ نے مریضوں کیلئے پیسے حاصل کرنے کے لئے اپنے انعامات اور اعزازات بیچ ڈالے- انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فاؤ کے مطابق یہ انعامات اور اعزازات ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اگر ان کے مریض تکلیف میں مبتلا رہیں۔

چائے کے بعد، ہمیں اسپتال کا دورہ کرنے کیلئے برآمدوں کی ایک بھول بھلیوں سے گزارا گیا جو کہ مین ایڈمنسٹریشن بلڈنگ سے منسلک ہے۔

اس جگہ پر چلتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ اس بلڈنگ کی بنیادوں میں کنکریٹ کے ساتھ کتنی ہمدردی، شفقت، پیار اور رحم دلی بھری ہوئی ہے۔

اسپتال، ایک آنکھوں کے وارڈ پر مشتمل ہے جبکہ یہاں ٹی بی کے مریضوں کا بھی مفت علاج اور دوا دونوں مفت فراہم کئے جاتے ہیں- ایک سماجی/سوشل ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جہاں لوگ مالی امداد کی تلاش میں آتے ہیں۔

جذام سے شفایابی کے عمل کے سب سے زیادہ اہم مرحلے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے، ایم اے ایل سی نے ایک بحالی کا پروگرام شروع کیا ہے جہاں جذام کے مریضوں کے خاندانوں کی کونسلنگ اور مشورہ دیا جاتا ہے- یہاں، بیماری کے بارے میں بیداری اور سمجھ پیدا کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر فاؤ کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنے جذام کے مریضوں کو اسپتال میں نوکری دیں تاکہ ان میں یہ احساس اجاگر ہو سکے کہ ان کی زندگی معمول پر آ چکی ہے- ایم اے ایل سی کے کچن مینیجر اور ایک گارڈ ان کی اس ترجیح کا ثبوت ہیں۔

بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے ایم اے ایل سی کو اعزازی ادویات فراہم کی جاتی ہیں جنہیں یہ ادارہ اپنے مریضوں کو بلا معاوضہ فراہم کرتا ہے- اور یہ جان کر ہمیں انتہائی حیرت اور خوشی بھی ہوئی کہ کے ای ایس سی، ایم اے ایل سی کو بجلی مفت دیتا ہے۔

کراچی الکٹرب کورڈ۔- ماہ جبین منکانی فوٹو
کراچی الکٹرب کورڈ۔- ماہ جبین منکانی فوٹو

اسپتال کے دورے کے اختتام پر مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ سچی ہمت تو اپنے عقائد کے تعاقب میں پوشیدہ ہے -- اس قسم کی ہمت جس کی وجہ سے ڈاکٹر فاؤ نے اپنا آبائی ملک چھوڑ کر ایک نامعلوم، اجنبی اور کبھی کبھی مخالف لوگوں کی دیکھ بھال کرنا منتخب کیا جو کہ مصیبت اور تنہائیوں کی اتاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

ان کا بے لوث کام کسی کو بھی بنی نوع انسان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے- ایک دوسرے کا خیال کرنے کے حوالے سے ہم کتنی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں؟ بے شک، آج ہمیں اس کا جواب دینا چاہئے۔

کیا یہ ہمیں ہمارے گھروں اور دنیاوی آرام کو پیچھے چھوڑنے کے لئے کافی ہے؟

ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب مشکل ہو لیکن یہ تو آسان ہے کہ ہم ان لوگوں کے شکر گزار ہوں جنہوں نے ایسا کیا- جنہوں نے بنا کسی دعوت کے، بنا کسی کے کچھ کہے، ہمیں دکھایا کہ بے حسی کے گراں بار تلے بھی کیسے انسانیت اپنی فتح کی راہ بناتی ہے۔

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں