ورلڈ کپ میں ریکارڈ گول، وجوہات کیا؟
ریو ڈی جنیرو: برازیل میں جاری فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بڑی تعداد میں ہونے والے گولوں نے شائقین کی توجہ میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ایونٹ کے ایک ہفتہ گزرنے کے دوران اب تک فی میچ 2.9 گول اوسط ہے جو 1958 کے بعد کسی بھی عالمی فٹبال ایونٹ میں گولز کی سب سے زیادہ اوسط ہے۔
سوئیڈن میں 1958 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں فی میچ گول اوسط 3.6 رہا تھا۔
ورلڈ کپ میں گولز کی اس برسات کی چھ وجوہات سامنے آئی ہیں۔
پہلی وجہ
دفاعی چیمپیئن سپین تو چلی کے ہاتھوں حیران کن شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہو گیا لیکن سپین کی فٹبال دنیا پر چھ سال تک بالادستی کی بڑی وجہ ان کا ’ٹکی ٹاکا‘ پاسنگ اسٹائل ہے۔ سپین اور بارسلونا کی جانب سے اپنایا جانے والا پاسنگ کا یہی انداز اسپین کے لگاتار دو مرتبہ یورو چیمپیئن اور عالمی چیمپیئن بننے کی وجہ بنا۔
اسی لیے اس انداز کو دنیا بھر کی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے اپنایا اور اب یہ عام ہو چکا ہے۔
اس سٹائل میں کھلاڑی زیادہ سے زیادہ دیر تک گیند اپنے پاس رکھنے کا رسک لیتا ہے جس کا نتیجہ زیادہ گول کی صورت میں نکلتا ہے۔
گرم موسم
جنوبی افریقہ میں منعقدہ 2010 ورلڈ کپ میں موسم برازیل کی نسبت ٹھنڈا تھا جبکہ اس مرتبہ موسم گرم اور ہوا میں نمی انتہائی حد تک زیادہ ہے۔ گرمی اور نمی کے باعث کھلاڑی زیادہ جلدی تھکاوٹ محسوس کرنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔
برطانوی روزنامہ ٹیلی گراف نے آسٹریلیا کے کوچ اینگے پوستے کوگلو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ۔یقیناً یہاں کی کنڈیشنز اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔۔
’اس سے مقابلے میں ہر ٹیم کے لیے برابری کا موقع ہے کیونکہ ایسے ماحول اور موسم میں کھیل بہت بڑا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کچھ مقابلوں میں دونوں فریق برابر دکھائی دیتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں گول
ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں برازیل کے دفاعی کھلاڑی مارسیلو کو اپنے ہی گول میں گیند ڈالنے میں محض گیارہ منٹ لگے لیکن اس کے باوجود میزبان ٹیم نے کروشیا کے خلاف 3-1 سے فتح حاصل کی۔
اب تک ٹورنامنٹ کے 20 میچوں میں 25 گول پہلے ہاف میں ہوئے اور جلد گول ہونے کی وجہ سے مقابلہ بہت زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے۔
تاحال سات ٹیموں نے خسارے میں جانے کے باوجود میچ میں کامیابی حاصل کی جبکہ اس کے مقابلے میں 2010 میں صرف چار ٹیمیں خسارے میں جانے کے بعد مقابلے جیتنے میں کامیاب رہیں۔
جدید تکنیک
گزشتہ ورلڈ میں 1-3-2-4 کی فارمیشن سے کھیلنے والی ٹیمیں حریفوں پر حاوی رہیں تاہم برازیل میں ٹیمیں بالکل مختلف تکنیک کے ساتھ اتری ہیں۔ ہالینڈ نے 2-3-5 کی فارمیشن کے ذریعے اسپین کو 5-1 کی عبرتناک شسکت سے دوچار کیا اور اسٹرائیکر ارجن رابن اور روبن وین پرسی پوری میچ پر حاوی دکھائی دیے۔
روبن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا دفاع انتہائی مضبوط تھا جس نے مجھے اور پرسی کو کھیل کر کھیلنے میں بہت زیادہ مدد کی اور بھرپور انداز میں جوابی حملے کے لیے ہمارے پاس پورا میدان تھا۔
رواں سالوں میں ایک اسٹرائیکر کے ساتھ کھیلنے کی حکمت عملی دم توڑتی جا رہی ہے اور زیادہ تر ٹیمیں دو سینٹرل فارورڈ کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اور جس کے نتیجے میں زیادہ گول ہوتے ہیں۔
ناقص و غیر معیاری گول کیپنگ
برازیل میں ابتدائی ہفتے کے دوران ہی شائقین کچھ حیران کن گول دیکھ چکے ہیں جس میں وین پرسی کا سپین کے خلاف تقریباً فضا میں اڑتے ہوئے ہیڈر کے ذریعے گول قابل ذکر ہے۔
اس کے علاوہ ٹِم کیہل کا ہالینڈ کے خلاف گول، لیونل میسی کا بوسنیا کے خلاف شاندار کٹنگ کے ذریعے فیصل کن گول بھی شامل ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ گول کیپنگ کا معیار بھی انتہائی غیر متاثر کن رہا ہے۔
سپین کے کپتان اور گول کیپر نے ہالینڈ کے خلاف دو حیران کن غلطیاں کیں جبکہ روس کے ایگور ایکن فیو اور آسٹریلیا کے میتھیو ریان نے بھی بھاری بھرکم غلطیاں کیں۔
متعدد بڑی ٹیموں کو گول کیپنگ کے شعبے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ برازیل کے جولیس سیزر اور ارجنٹینا کے سرجیو رومیرو میچ پریکٹس سے قاصر رہے جبکہ گیان لوگی بفون انجری کے باعث اپنی ٹیم کا افتتاحی میچ نہ کھیل سکے لہٰذا یہ ٹورنامنٹ یقیناً اکثر گول کیپرزکے لیے ایک ایسا بھیانک خواب ثابت ہو گا جسے وہ کبھی یاد نہ رکھنا چاہیں گے۔
سنو بال کا اثر
ٹورنامنٹ کے ابتدائی مرحلے میں گولوں کی برسات نے تمام ہی ٹیموں کی کافی حوصلہ افزائی کی اور اب وہ بھی زیادہ سے زیادہ گول کو ترجیح دے رہی ہیں۔
اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے جہاں ایک طرف زیادہ گول اور رسک لینے والی ٹیموں کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری جانب دفاعی کھیل پیش کرنے والوں کو شائقین رد کر رہے ہیں۔
انگلینڈ کے اسٹرائیکر ڈینیئل اسٹرج نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ کپ میں خصوصاً نیوٹرل تماشائیوں کے لیے یہ ایک انتہائی اچھا تجربہ ہے جہاں بہت زیادہ گول ہونے کے ساتھ ساتھ گول کرنے کے بھی کافی مواقع میسر آرہے ہیں۔
’میں میچ کھیلنے کے ساتھ ساتھ دیکھتے ہوئے بھی انتہائی لطف اندوز ہو رہا ہوں۔‘