'بیروزگاری میں کمی نظر نہیں آرہی'
اسلام آباد : وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے وزارت خزانہ کے تخمینے سے اختلاف کیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح چھ فیصد تک کم ہوگئی ہے اور اصرار کیا ہے کہ بیروزگاری میں اس تک کمی نہیں آسکتی جب تک شرح ترقی 7 فیصد تک نہ بڑھ جائے۔
ان کی یہ دلیل اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ وہ وزارت خزانہ کے اس تخمینے کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں جس کے مطابق آئندہ مالی سال کے دوران 25 لاکھ نئی ملازمتیں تخلیق کی جاسکیں گی۔
وزارت خزانہ نے گزشتہ ہفتہ جاری کردہ اقتصادی سروے میں کہا تھا کہ 2012-13 میں بیروزگاری کی شرح 6.24 فیصد تھی جو 2013-14 میں کم ہوکر چھ فیصد ہوگئی۔
پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ غربت اور بیروزگاری میں کمی کا اقتصادی شرح نمو سے قریبی تعلق ہے " جب آپ کی آبادی شرح آبادی دو فیصد کے لگ بھگ اور اقتصادی شرح نمو تین فیصد ہو جیسا حالیہ برسوں کے دوران دیکھا گیا ہے، تو آپ بیروزگاری میں کمی نہیں کرسکتے کیونکہ آبادی میں اضافہ جی ڈی پی کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتا ہے اور صرف نصف یا ایک فیصد حقیقی اقتصادی شرح نمو ہی باقی رہ جاتی ہے"۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ لاکھ نئی ملازتوں کی ضرورت ہے مگر ایسا ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اقتصادی شرح کی رفتار 7 فیصد ہو " اگر ہم غربت اور بیروزگاری میں کمی چاہتے ہین تو ہمیں اقتصادی شرح نمو کم از کم سات فیصد تک کرنا ہوگی"۔
تاہم احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری اور 46 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے پاکستان کی رفتار بڑھے گی اور کے سرمایہ کاری کے لیے موزوں ملک بننے کے حوالے سے تصور میں تبدیلی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے ابتدائی چینی سرمایہ کاری اور متعدد منصوبوں کا آغاز آئندہ مالی سال کے دوران ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک بن سکتا ہے اگر پوری قوم ایک مثبت سوچ پر راضی ہوجائے اور تخریبی سیاست کا خاتمہ ہوجائے۔
دونوں وزارتوں کے درمیان آئندہ تین برسوں کے دوران ترقی کے اہداف کے حوالے سے خیالات کے اختلاف کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ دونوں کے درمیان کوئی بڑا اختلاف نہیں مگر یہ منصوبہ بندی کمیشن کا شعبہ ہے کہ وہ طویل المدتی اور وسط مدتی ترقیاتی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرے، اور دونوں وزارتوں کے خیالات مماثلت رکھتے ہیں۔
وہ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے 2016-17 کے لیے 6.5 فیصد اور 2017-18 کے لیے 7.5 فیصد شرح ترقی اور وزارت خزانہ کے چھ اور سات فیصد شرح ترقی کا ھوالہ دے رہے تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز کو پانے میں ناکامی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا مگر وفاقی حکومت اس شرمندگی کی تلافی نئے عالمی مقاصد کو حاصل کرکے کرے گی۔
پانی کے شعبے کے لیے فنڈز میں کمی کے سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کی آبپاشی اسکیموں اور چھوٹے ڈیموں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی توجہ بڑے منصوبوں جیسے دیامر بھاشا اور داسو ڈیمز پر مرکوز کر دی ہے جن کے لیے مناسب فنڈز دستیاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت لیاری ایکسپریس وے، گرین لائن ماس ٹرانزٹ اور کے فور واٹر سپلائی کے منصوبوں کے حوالے سے فنڈز ریلیز کرنے کے لیے پرعزم ہے مگر یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی رکاوٹوں کو ختم کرے اور زمینوں کی خریداری کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتصادی تنزلی کو روک دیا ہے اور استحکام کی سطح کو حاصل کرلیا ہے، جبکہ ملک کو ٹیک آف کی پوزیشن پر لے آئے ہیں اب ٹھوس اقدامات کے ذریعے اقتصادی شرح کو ٹھوس بنانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روڈ اور انرجی انفراسٹرکچر آئندہ سال کے ترقیاتی ایجنڈے کی خاص شعبے ہیں تاکہ ملک میں ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کی قلت پر قابو پایا جاسکے جبکہ ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بہتر بناکر اضافی سپلائی صارفین تک پہنچائی جاسکیں۔
موجودہ ٹرانسمیشن سسٹم ساڑھے 15 ہزار میگاواٹ سے زیادہ پیداوار اپنے اندر جذب نہیں کرسکتا اور چاہے مناسب مقدار میں پیدوار کو یقینی ہی کیوں نہ بنالیا جائے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ شاہراﺅن کے نیٹ ورک میں گمشدہ لنکس جیسے اسلام آباد ڈیرہ اسمعیل خان، قراقرم ہائی وے کو اپ گریڈ کرنا جبکہ کراچی لاہور سیکشن پر کام کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ حیدرآباد کراچی موٹروے کو نجی شعبے کی جانب سے کمرشل بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن پر شاہراﺅں اور میٹرو بس سسٹم پر بہت زیادہ توجہ دینے کے حوالے سے تنقید پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے نظر آتا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں توانائی، انفراسٹرکچر اور امن سے متعلق ہے جبکہ سماجی شعبے صوبوں کو منتقل کردیئے گئے ہیں۔