سلمان بٹ اور محمد آصف سے ہمدردی کیوں نہیں

21 اگست 2015
عامر نے فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیا لیکن سلمان بٹ اور محمد آصف اسے سازش قرار دے کر قوم کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ — AP/File
عامر نے فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیا لیکن سلمان بٹ اور محمد آصف اسے سازش قرار دے کر قوم کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ — AP/File

لارڈز کے اس ٹیسٹ میچ کو پانچ سال گزر چکے ہیں، لیکن 2010 میں پاکستان کے دورہء انگلستان کے اس چوتھے میچ کی یادیں اب بھی بھیانک خواب کی طرح تازہ ہیں۔

اس سیریز میں پاکستان 1-2 پر تھا، اور چار میچوں کی سیریز برابر کرنے کے امکانات روشن تھے جب نیوز آف دی ورلڈ کے اسٹنگ آپریشن نے کرکٹ کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلرمحمد آصف، اور نوجوان ٹیلنٹ محمد عامر پر لارڈز ٹیسٹ میں نیوز آف دی ورلڈ کے خفیہ رپورٹر سے پیسے لے کر جان بوجھ کر نو بالز کروانے پر تمام طرح کی کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن آدھی رات کے وقت خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔

میرے لیے تو بین الاقوامی ٹی وی چینلز جیسے بی بی سی اور دیگر پر ان تینوں کرکٹرز کی تصاویر بار بار دیکھنا بہت ہی حیران کن تھا۔ خبریں سنتے سنتے میرا دل بھاری ہونے لگا۔ اس رات میرے لیے سونا مشکل تھا۔

میں ہمیشہ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کا حامی رہا ہوں، اور کرپشن کی افواہوں کو بے بنیاد یا غلط فہمی پر مبنی قرار دے کر رد کر دیتا ہوں۔

پڑھیے: سابق کھلاڑی ’اسپاٹ فکسرز‘ کی واپسی پر تقسیم

لیکن پھر بھی اس وقت میں اپنی زندگی کے تین لمحات یاد کیے بغیر نہیں رہ سکا؛ 1996 میں ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں ہندوستان کے ہاتھوں شکست پر اپنے دوستوں سے بحث کرنا، جن کا خیال تھا کہ کپتان نے ہندوستان سے پیسے لیے تھے؛ کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں اپنے دوستوں سے بحث کرنا جو اسی کپتان پر نئے الزامات عائد کر رہے تھے؛ اور جب یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ جسٹس قیوم نے اس لیجنڈ کھلاڑی پر ہلکا ہاتھ ان کے لیے اپنے دل میں موجود نرم گوشے کی وجہ سے رکھا تھا، تو اسی کھلاڑی کا دفاع کرنے میں مشکل محسوس کرنا۔

جب راشد لطیف اور باسط علی نے 90 کی دہائی میں شور مچانا شروع کیا تھا، اگر تب ہی انصاف کر دیا جاتا تو بٹ، عامر، اور آصف کبھی بھی 2010 میں تھوڑے زیادہ پیسوں کے لیے ملک کا وقار داؤ پر نہ لگاتے۔

مگر سلمان بٹ اور محمد آصف کی جانب سے اپنے قانونی دفاع پر خرچ کی گئی دولت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جدید کھلاڑی کافی دولتمند تھے۔ پاکستان کے لیجنڈ کرکٹرز اپنے گزارے کے لیے بھی پریشان رہتے تھے (1992 میں پاکستان کی ورلڈ کپ ٹیم کے لیے اپنا خرچہ پورا کرنا بھی مشکل تھا) مگر ان کے مقابلے میں یہ کھلاڑی اچھا کما رہے تھے۔ شاید ہندوستانی اور دیگر بین الاقوامی کھلاڑیوں جتنا نہیں، لیکن پھر بھی بہت بہتر۔

ملکی وقار کے ساتھ ساتھ تینوں کھلاڑیوں نے کھیل کے وقار کو بھی نقصان پہنچایا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، کرکٹ باریک نکات کا کھیل ہے۔

چھوٹے، قدرتی، اور ناقابلِ پیشگوئی واقعات بھی پورے میچ کا پانسہ اتنا پلٹ سکتے ہیں، کہ دیکھنے والوں کو دکھ میں ڈال دے۔

ان کے اس قدم کے نتیجے میں پاکستان کرکٹ کے کئی تاریخی لمحات پر سوال اٹھائے جانے لگے تھے۔

پڑھیے: عامر کی ڈومیسٹک کرکٹ میں کامیاب واپسی

کیا ایک وکٹ کیپر واقعی کیچ، اسٹمپ، اور رن آؤٹ کے درجنوں مواقع ایک ہی میچ میں گنوا سکتا تھا؟ اور اگر وہ اتنا ہی نااہل تھا تو وہ کھیل کا حصہ ہی کیوں تھا؟

ایک فاسٹ باؤلرعطاء الرحمان کا نام یاد آتا ہے جو بلاشبہ دنیا کے بہترین بولرز میں سے نہیں تھے، جنہیں ہٹانے کے لیے بورڈ نے پوری کوشش کی مگر انہیں صرف کپتان کے اصرار پر رکھا گیا۔ بعد میں اسی باؤلر نے کپتان کے خلاف گواہی دی کہ انہیں ٹیم میں صرف میچ فکسنگ میں مدد کے لیے رکھا جاتا تھا۔

اب سے چند ماہ بعد سلمان بٹ اور محمد آصف پھر بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے اہل قرار پائیں گے، اور وہ بھی واپس آنے کے لیے بیتاب ہیں۔

میں سزا پوری کرنے والوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان لوگوں کو معاف کر دینے پر یقین رکھتا ہوں، لیکن میں جاوید میانداد جیسے لیجنڈز کی بات کی تائید کرتا ہوں جب وہ کہتے ہیں کہ بٹ اور آصف کو پاکستان کرکٹ سے جتنا دور ہو سکے رکھنا چاہیے۔

دوسری جانب مجھے لگتا ہے کہ عامر کو دوسرا موقع دیا جا سکتا ہے۔ وہ نوجوان تھے، آسانی سے زیرِ اثر آسکتے تھے، اور انہیں آگے بڑھنے اور دوسرے نوجوان کرکٹرز کے لیے مثال بننے پر انعام دیا جانا چاہیے۔

پڑھیے: پی سی بی اسپاٹ فکسرز کو کھیل سے دور رکھے، میانداد

عطاء الرحمان نے جب 90 کی دہائی میں راز افشاء کیا، تو انہیں قومی ہیرو قرار دینے کے بجائے انہیں دھمکیاں دی گئیں جس پر وہ آخر کار بیرونِ ملک منتقل ہوگئے۔

سلمان بٹ اور محمد آصف کے لیے کوئی ہمدردی نہیں

عامر نے فوراً ہی اعتراف کر لیا (کون جاتا ہے کہ یہ ایک قانونی حربہ ہو؟)، لیکن سلمان بٹ اور محمد آصف اسے سازش قرار دے کر قوم کے جذبات سے کھیلتے رہے۔

انہوں نے معافی صرف تب مانگی جب تمام قانونی راستے ان پر بند ہوگئے۔

ذاتی طور پر کہیں تو میں سلمان بٹ اور محمد آصف پر ان کے جرم کی وجہ سے اتنا غصہ نہیں تھا جتنا کہ ان کے میڈیا پر کیے جانے والے تماشے پر ہوا۔ سلمان بٹ بار بار ٹی وی پر آئے اور اپنی معصومیت کی دہائی دیتے رہے: اس حرکت کو صرف شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔

سلمان بٹ اور محمد آصف کو اب صرف لولی وڈ کی فلموں میں کرکٹ کھیلنی چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (1) بند ہیں

Shah Aug 21, 2015 09:24pm
Agar Asif, Salman,aamir ko PCB wapis lay sakta hay to Danish kyu nahi askta hay, kya wo Hindu hay is lye.