کریئر پلاننگ: والدین اپنی ذمہ داری پوری کریں

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2015
تعلیمی شعبے کے انتخاب کے وقت روزگار کے حوالے سے اس کی موجودہ اور مستقبل کی مارکیٹ ویلیو مدِ نظر رکھنی چاہیے۔ AFP/File
تعلیمی شعبے کے انتخاب کے وقت روزگار کے حوالے سے اس کی موجودہ اور مستقبل کی مارکیٹ ویلیو مدِ نظر رکھنی چاہیے۔ AFP/File

کریئر کی مناسب منصوبہ بندی کے لیے رہنما اصولوں پر مبنی بلاگز کی سیریز میں یہ تیسرا اور آخری حصہ ہے. گذشتہ حصے یہاں پڑھیں.


میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستانی والدین بچوں کے تعلیمی مستقبل سے زیادہ ان کی شادیوں کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ شادیوں کے بارے میں ہمارے والدین کا یہ رویہ قابل تحسین ہے، لیکن جناب شادی کی ناکامی کی بنیادی ترین وجہ کمزور معاشی حالات ہیں اور یہ طلاق کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔

کیا اس کی بنیادی وجہ ناقص کریئر پلاننگ نہیں؟ یا یہ کہ کریئر پلاننگ کے بارے میں زیادہ فکر ہی نہیں کی جاتی۔

اس لیے ہمارے والدین کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی اور کریئر کی منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اب والدین کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کبھی خود بہ خود نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے اچھی منصوبہ بندی لازمی ہے۔ اور اپنے بچوں کے مستقبل کی پلاننگ آپ نے خود کرنی ہے۔ یہ تصور ہی ذہن سے نکال دیں کہ کہ خدا بہتر کرے گا یا جو نصیب میں ہوگا وہ ضرور ملے گا، یا یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے بچوں کے لیے کچھ کرے۔

یاد رکھیں کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور دنیا کی تمام حکومتیں صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتی ہیں، اس لیے اپنے بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی آپ نے خود کرنی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے مطابق قابلِ عمل ہدف مقرر کریں اور اچھی اور قابلِ عمل منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے کامیاب کرنے کی کوشش کریں۔

بچے کی پسند کا خیال رکھیں مگر

اس حوالے سے بچوں کی مرضی کا خاص خیال رکھیں، لیکن اس بات کا یقین کر لیں کہ یہ بچے کی حقیقی مرضی ہے کیونکہ بعض اوقات بچوں کی مرضی بھی مصنوعی یا عارضی ہوتی ہے جس کی کوئی ٹھوس وجہ یا بنیاد نہیں ہوتی۔

پڑھیے: 6 ماہ سے 2 سال کا وقفہ کریئر کیلئے مثبت

مصنوعی مرضی سے میری مراد یہ ہے کہ بعض دفعہ بچے کسی دوسرے کی دیکھا دیکھی، یا اپنے آپ کو زیادہ قابل ثابت کرنے کے لیے کسی ایسے مشکل شعبے میں داخلہ لے لیتے ہیں جس کا نام کافی بھاری اور پرکشش ہوتا ہے، لیکن صرف ایک ہی سال کے بعد اس شعبے کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ان کی مرضی مصنوعی تھی۔ اگر حقیقی مرضی سے مکمل تحقیق و اطمینان کر لینے کے بعد کوئی شعبہ اختیار کیا گیا ہو تو تمام تر مشکلات کے باوجود طلبہ اس میں جمے رہتے ہیں۔ اس کی عام مثال چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (سی اے) اور اے سی سی اے کے کورسز ہیں، جن میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات سی اے پاس لوگوں کی پرکشش تنخواہیں دیکھ کر یا دیگر دوستوں کو دیکھ کر داخلے لیتے ہیں اور صرف ایک سال کے اندر اندر اس سے ’’توبہ‘‘ کر لیتے ہیں۔

عام طور پر والدین کا ایک نہایت غلط رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ذریعے اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ شاید کچھ جگہوں پر تو ممکن ہو کہ آپ کا بچہ آپ کے خوابوں کی تکمیل کر دے، لیکن اس کے لیے درکار وقت، محنت، اور سرمائے کے لیے کیا آپ تیار ہیں؟ اس کے علاوہ یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب آپ کے بچے کی سوچ اور اس کی پسند بالکل آپ ہی کے جیسی ہو، جو اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہے۔

مزید یہ کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جس شعبے میں جانے کی آپ کی خواہش تھی، کیا آج کے جدید دور میں اس کی مارکیٹ ویلیو (روزگار کے مواقع+پرکشش تنخواہ) برقرار ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، تو ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں، تو پھر آپ کے خوابوں سے زیادہ وہ شعبہ اختیار کرنا اہم ہے جو اس بچے کی عملی زندگی میں کام آئے۔

فراڈیوں سے ہوشیار رہیں

درس و تدریس کا شعبہ مقدس شعبہ ہے، اس سے وابستہ افراد کا پورے معاشرے کو احترام کرنا چاہیے۔ لیکن جتنے فراڈ آج کل اس شعبے میں جاری ہیں، ان کو شمار کرنا مشکل ہے۔ اس لیے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی تعلیمی یا تربیتی ادارے میں اپنے بچوں کو داخلہ دلوانے سے پہلے اس کی اچھی طرح تسلی کرلیں۔

مزید پڑھیے: سوشل اسکلز—بہترین کریئر کی ضمانت

جعلی اور غیر تصدیق شدہ (عرفِ عام میں دو نمبر) ادارے صرف پاکستان میں ہی نہیں کام کر رہے بلکہ امریکا، چین، آسٹریلیا، اور انگلینڈ میں بھی موجود ہیں جو نہ صرف آپ سے فیس کی مد میں لاکھوں روپے کا فراڈ کر سکتے ہیں بلکہ آپ کے بچے کے کئی قیمتی سال بھی ضائع ہو سکتے ہیں۔

اکثر والدین ایسے امور میں اپنے بچوں کو آگے کرتے ہیں: "بیٹا آپ طے کر لیں کس یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے۔ اب اپنا کام آپ نے خود ہی کرنا ہے، آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس وقت کم ہے۔"

مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس وقت ابا جان کے پاس وقت کم تھا۔ لیکن جب بچہ ناکام ہوتا ہے یا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی فراڈ ہوتا ہے تو ابا جی کے پاس بچے اور اس کی ماں کی کلاس لینے کے لیے ہفتوں کے حساب سے وقت کہاں سے آ جاتا ہے۔

کئی دفعہ تعلیمی ادارے ہی مکمل فراڈ ہوتے ہیں۔ لیکن کئی صورتوں میں ادارے تو مستند ہوتے ہیں لیکن ان کے کورس کی کوئی مارکیٹ ویلیو نہیں ہوتی، (خاص طور پر بیرونِ ملک)۔ اس صورت حال میں آپ کے پاس ڈگری تو اصلی اور تصدیق شدہ ہوتی ہے لیکن اس کی مارکیٹ ویلیو نہ ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی سال اور کافی سرمایہ لگانے کے باوجود بچہ اس ہی جگہ ہوتا ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا، یعنی جاب لیس۔

میری رائے میں اس میں بچے کا قصور کم اور والدین کا زیادہ ہے۔ خاص طور پر اگر والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔

آپ خود ہی سوچیں کہ کس طرح سترہ اٹھارہ سال کا بچہ مارکیٹ کے انتہائی چالاک افراد کے فراڈ کو پہچان سکتا ہے؟ وہ معصوم بچوں کو شیشے میں اتارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کئی سالوں کے تجربے کی بنیاد پر ان کو اس کام کی مکمل مہارت ہوتی ہے، لہٰذا بچے کو بڑی آسانی سے وہ 'عقل مند' بنا دیتے ہیں۔ اور اس کو پوری طرح مطمئن کر لیتے ہیں۔ چند ماہ پہلے اپنے ہی ملک میں ہونے والے ایسے مبینہ فراڈ کے بارے میں میڈیا میں کافی تہلکہ مچ چکا ہے۔

جانیے: ڈگری یافتہ یا تعلیم یافتہ؟

پاکستان میں ایک فراڈ جو کافی عام ہے، وہ ہے غلط شعبہ کی جانب رہنمائی۔ ہوتا یہ ہے کہ یونیورسٹی یا دیگر تعلیمی اداروں میں ہر شعبے میں ایک خاص تعداد میں طلبہ و طالبات کا داخلے کا کوٹہ ہوتا ہے۔ اب جب طلبہ و طالبات اس تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے جاتے ہیں۔ تو ان کے پاس تمام سیٹیں پر ہو چکی ہوتی ہیں۔ مگر وہ اپنے ’’گاہک‘‘ کو ضائع نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ان کے انتہائی چالاک ’اسٹوڈنٹس افیئر آفیسرز‘ طلبہ کی غلط رہنمائی کرتے ہیں تاکہ وہ کسی دوسرے ادارے میں داخلے کے بجائے ان کے ادارے میں ہی داخلہ لیں۔ اس کی عام مثال فرسٹ ایئر سائنس (ایف ایس سی) کے بجائے ایف اے، یا آئی کام میں داخلے کی طرف راغب کرنا ہے۔

میٹرک کی سطح پر کثرت سے دیکھا گیا ہے کہ جن نجی اسکولوں کے مالکان بائیولوجی کی تجربہ گاہ پر رقم خرچ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، وہاں طلبہ و طالبات کو بائیولوجی کے بجائے کمپیوٹر سائنس میں میٹرک کروا دی جاتی ہے۔ مفاد پرست اسکول مالکان طلبہ اور ان کے والدین کو مختلف حیلوں بہانوں سے اس بات پر باآسانی آمادہ کر لیتے ہیں کہ بچہ وہی چیز پڑھے جو یہ چاہیں۔

اس لیے طلبہ اور والدین کو چاہیے کہ جس بھی شعبے کا انتخاب کریں، اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں، اس شعبے سے وابستہ لوگوں سے ملاقات کریں، اس شعبے کے ذیلی شعبہ جات کون کون سے ہیں، اس شعبہ کا 10 سال بعد کیا مستقبل ہوگا، اس بارے میں معلومات حاصل کریں۔

ان معلومات کے حصول پر خرچ ہونے والے سرمائے اور وقت کی فکر نہ کریں، یہ چند دنوں کی محنت آپ کے بچوں کی آئندہ ساری زندگی میں بہتری لا سکتی ہے کیونکہ ’’منصوبہ بندی کا ایک منٹ عمل کے دس منٹ بچاتا ہے‘‘ یعنی کریئر پلاننگ کی وجہ سے آپ دس گنا وقت، محنت، اور سرمایہ بچا سکتے ہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Muhammad Hanif Sep 15, 2015 06:26pm
I didn't get a chance to read the previous episodes but what I have read is absolutely correct. Although we have shortage of good resources and it's very difficult for every parents to make a good plan for their kids and execute it. We need more social workers in this field who start counselling of students immediate after secondary school.
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 15, 2015 06:44pm
پلاننگ کو منصوبہ بندی کہا جاتا ہے۔ پلاننگ ہر عمل کی ہوتی ہے چاہے کوئی حادثہ درپیش ہو جائے تو اس میں سے نکلنے کی پلاننگ، افسر ناراض ہو جائے تو اس کو منانے کی پلاننگ، بیگم پیکے سے واپس جلدی نہ آئے تو اسے جلدی واپس لانے کی پلاننگ، بچے پڑھائی میں انٹرسٹ نہ لیں تو ان میں دلچسپی پیدا کرنے کی پلاننگ۔۔۔۔۔ الغرض ہر کام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، پلاننگ ہی پلاننگ۔ ہمارے آباؤ اجداد جو قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے چند سال بعد پیدا ہوئے، وہ پلاننگ کو لاگے نہیں لگنے دیتے تھے، وہ پلاننگ کو وہم شمار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ سارا دماغ پلاننگ پر لگا دیا جائے تو عمل کے لیے دماغ بچتا ہی نہیں۔ اس لیے ان کا فلسفہ حیات تھا حاضر دماغی یعنی موقع پر ہی پلاننگ اور عمل۔ آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ وہ لوگ مستقبل کے خوف سے آزاد تھے اور اپنے حال میں جیتے تھے، اور میں نے انہی لوگوں کا فلسفہ حیات اپنایا ہے اور پلاننگ کو ڈر، خوف اور وہم سمجھتا ہوں اور عمل پر یقین رکھتا ہوں۔ پلاننگ ہمارے معاشرے میں سے اخذ نہیں کی گئی بلکہ اسے بینکرز اور بزنس کلاس نے روشناس کیا کیونکہ ان کی نظر ہمیشہ زیادہ سے زیادہ پرافٹ پر ہوتی ہے۔۔۔
suarry Sep 15, 2015 07:34pm
یہ درست ہے خود میرے بچے کے ساتھ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کی یونیورسٹی نے ایسا کیا تھا۔ اس کو بی اے کے بعد تین سالہ کا ڈپلومہ ان ہوٹل میں کروایا دیا ۔ مجھے سے کوئی دو لاکھ روپے کی رقم فیسوں کی شکل میں وصول کی ۔ اور اس کے بعد کئی سال تک میرے بیٹے کو ئی نوکری نہیں ملی ۔ بعد میں اس نے پھر سے بی اے اور اس کے بعد ایم بی اے کیا۔
akbar ali Sep 15, 2015 07:40pm
absolutely right Sir
Rao Sarfraz Sep 16, 2015 11:08pm
Career planning waqe he bohat zrori ha or ap ne boht achi information share ki hain.jaha tak career planing k mutaliq mera khayal ha k humy apny pas pehly se majood wasail ko dakh kr planning krna chahye.For example hum agriculture k hwaly se bat krein to agr ki c k pas kashtkari k liye zameen ha to wo agriculture ki education hasil kre jis me mukhtlif courses shamil hain.
Ali Sep 17, 2015 02:10pm
i like it
Ali Sep 18, 2015 12:25pm
I like it and i want that writer write more on this topic continuously but i like the internet topic the most and i thing this writer only write special and new things not on current affairs like others writer/prople
عائشہ بخش Sep 18, 2015 07:15pm
متحرم رائٹر صاحب آپ کی بات درست ہے کہ کریئر پلاننگ کے اخراجات کے فکر نہ کریں ۔ لیکن ہمارے مسئلہ یہ ہے کہ کریئر پلاننگ کس طرح کی جائے ۔ ہم وقت اور سرمایہ خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ ہمارے پاس اس سلسلے میں معلومات ہی موجود نہیں۔ کالج / یونیورسٹی کے انتخاب کا واحد ذرائع یہ اشتہارات ہیں۔ یا ان کی بڑی بڑی بلڈنگز ۔۔۔۔۔ ایمان داری کی بات ہے ۔ ایک عام پاکستانی خاندان کے فرد کی حثیت سے مجھے کیا معلوم کہ میری بیٹے / بیٹی کے لئے کون سا شعبہ بہتر ہے جس میں اس کو نوکری آسانی سے مل جائے گی ؟