وحید مراد: 'چاکلیٹ کا آخری ٹکڑا'

23 نومبر 2016
وحید مراد — تصویر بشکریہ ابڑو
وحید مراد — تصویر بشکریہ ابڑو

ایک پان کی دکان جہاں سے میں اکثر اپنے سگریٹ خریدتا ہوں، وہاں مرحوم پاکستانی فلم اسٹار اور آئیکون وحید مراد کا ایک پرانا پوسٹر لگا تھا۔ میں نے دیکھا تھا کہ یہ پوسٹر اس دکان کے ایک کونے میں تب سے چپکا ہوا تھا جب لگ بھگ بیس سال قبل میں نے پہلی بار یہاں سے سگریٹ خریدنے شروع کیے تھے۔

میں اس دکان کے مالک کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ آج وہ ایک سفید بالوں والا شخص ہے جو عمر کی چھٹی دہائی کے آخر میں ہے اور اس کا نام یامین ہے۔ اس کی اسی علاقے میں پان اور سگریٹ کی مزید تین دکانیں ہیں اور اس نے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کافی کچھ کیا ہے۔

وہ ایک تین بیڈروم کے فلیٹ (جو اس کی ملکیت ہے) میں اپنی بیوی اور تین بچوں (دو بیٹے اور ایک بیٹی) کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اس کے بیٹے کالج سے گریجویشن کر چکے ہیں اور ان میں سے ایک یامین کی تین میں سے دو دکانوں کی دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ دوسرا بیٹا ایک چائے کمپنی کے سیلز ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ گزشتہ سال یامین کی بیٹی نے ایک مقامی کالج سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔

باوجود اس کے کہ میں یامین کو بیس برسوں سے جانتا ہوں، مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں 31 سال پہلے اپنی پان کی دکان کھولنے سے قبل وہ ایک حجام تھا.

مجھے اس بارے میں حال ہی میں اس وقت معلوم ہوا جب میں نے آخرکار یامین سے وحید مراد کے پرانے، گرد آلود پوسٹر کے بارے میں پوچھا جسے اس نے ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔

وہ ہنسنے لگا: 'ارے آپ نہیں جانتے؟'

یامین کے ایک ملازم قدرت نے مسکراتے ہوئے کہا 'یار پراچہ صاحب، آپ نے یاور بھائی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔'

پھر معلوم ہوا کہ یہ پوسٹر 40 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے! یامین نے اسے صدر کے علاقے ریگل میں ایک ٹھیلے والے سے 1974 میں اس وقت خریدا تھا جب اس کی عمر کی دوسری دہائی کا آغاز ہوا تھا۔ وہ وحید مراد کا بہت بڑا پرستار تھا۔

اس وقت پاکستان کی فلمی صنعت پھل پھول رہی تھی اور وحید مراد بڑے اسٹارز میں سے ایک تھے۔

یامین نے میٹرک کے دوران اسکول چھوڑ دینے کے بعد گرومندر کے علاقے میں اپنے ایک رشتے دار کی حجامت کی دکان میں ملازمت کرلی تھی۔

اس نے مجھے بتایا 'میں وحید مراد کی وجہ سے حجام بن گیا تھا، ان کے بالوں کا انداز اس وقت بہت مقبول تھا۔ خواتین ان کی دیوانی تھیں اور سب مرد حجاموں سے وحید مراد کٹ کی فرمائش کرتے تھے۔'

1979 میں یامین اپنی حجامت کی دکان کھولنے میں کامیاب ہوگیا، مگر چار سال بعد اس نے اچانک اسے اپنے ایک دوست کو فروخت کردیا اور ملنے والی رقم سے کلفٹن میں پان کی دکان کھول لی۔

"کیا وہ دکان اچھی نہیں چل رہی تھی؟"

یامین کا جواب تھا 'دکان تو بہت اچھی چل رہی تھی اور مجھے وہاں سے اچھی آمدنی ہو رہی تھی۔'

"مگر پھر اسے اچانک فروخت کیوں کر دیا؟"

یامین نے وضاحت کی 'مراد صاحب کی وفات ہو گئی تھی۔'

وحید مراد کے انتقال کے بعد یامین نے سنیما کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیا اور ویسے بھی تب تک ملک کی اردو فلمی صنعت اپنے زوال کی جانب تیزی سے گامزن تھی، جس کے بعد 80 کی دہائی سے قبل کے معاشرے کے مقبول کرداروں نے بھی اپنے اندر سمٹنا شروع کردیا۔

یامین کے مطابق 'ایک دن بس میں نے حجام کے کام کو چھوڑ دیا۔ ان کے (وحید مراد) انتقال کے بعد میرا دل ٹوٹ چکا تھا۔ مگر زیادہ دل دکھانے والی حقیقت یہ تھی کہ لوگوں نے انہیں بھلا دیا تھا۔ وہ متعدد پاکستانیوں کی زندگیوں میں خوشی اور رنگ لائے تھے مگر بہت کم نے ہی ان کی موت کا سوگ منایا۔'

جب پاکستانی فلمی صنعت کا زوال شروع ہوا تو بڑی تعداد میں اداکار اور فلم ساز جو اچھی طرح شہرت اور دولت سمیٹ رہے تھے، نے اچانک خود کو بے یار و مددگار اور تنہا پایا۔

کچھ نے پینا شروع کر دیا اور گمنامی کی جانب چلے گئے، کچھ نے اپنی انا (اور معاوضے) پر مفاہمت کرتے ہوئے ٹی وی ڈرامے کرنا شروع کردیے، جبکہ دیگر نے بلند آہنگ گھٹیا پنجابی فلموں کے کردار لینا شروع کر دیے جن کی مقبولیت 80 کی دہائی میں بڑھ رہی تھی۔

کبھی مثالی سمجھے جانے والے ستاروں کے پاکستان میں اپنی آب و تاب سے اچانک محروم ہونے کی سب سے واضح مثال اس شخص کی ہے جو ایک دہائی سے زائد عرصے تک ملک میں سب سے بڑا فلمی آئیکون رہا: وحید مراد۔

1960 کی دہائی کے وسط سے 1977 تک ایسا لگتا تھا کہ وحید مراد جس کو بھی چھوئیں گے وہ سونا بن جائے گا۔

1967 کے بعد سے ان کا ہیئر اسٹائل نوجوانوں میں بے حد مقبول تھا اور اپنایا جاتا تھا، جبکہ ان کے رومانوی کرداروں نے انہیں لاکھوں نوجوان لڑکیوں اور گھریلو خواتین کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا تھا.

وہ صرف شائستہ اور شریف رومانوی مرد کے کرداروں کو قبول کرتے تھے جو اپنا دل اپنی ہتھیلی میں لے کر گھومتا اور اپنی مثبت فطرت کا مظاہرہ ہر وقت تنقید نہ کر کے کرتا۔ انہیں پیار سے 'چاکلیٹ ہیرو' کہا جاتا تھا۔

مگر پاکستان میں 1977 کی فوجی بغاوت کے بعد قدامت پسندانہ سوچ ابھرنے سے فلمی صنعت کو لگنے والے گوناگوں جھٹکوں کے بعد حالات بدلنے لگے، تو وحید مراد اس آفت کے پہلے شکار بنے۔

وحید مراد کے ہم عصروں، جیسے محمد علی، نے درست راستہ اپناتے ہوئے ایسی فلمیں بنانا شروع کر دیں جو ملک میں آنے والی آمریت کے 'درست اخلاقی معیارات' کے مطابق تھیں۔ وحید مراد کے رومانوی کردار جو رقص اور گانوں کے ساتھ ساتھ اگلے ہی لمحے آنسو بہا سکتے تھے، اچانک ہی مروجہ آداب سے باہر ہو گئے۔

وحید مراد نے خود کو کریکٹر اداکار کی حیثیت سے بدلنے کی کوشش کی مگر ان سے جڑا ایک شوخ رومانوی تصور ہر ایک کے لیے اتنا تازہ اور غالب تھا جو کسی کو ان کے دیگر پختہ کردار سنجیدگی سے لینے ہی نہیں دیتا تھا۔

یہاں تک کہ ان کے ایک اور ہم عصر اداکار ندیم 1979 تک ہٹ فلمیں دیتے رہے، مگر وحید مراد کو فلمسازوں نے نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ 1977 میں جہاں وہ تھے، وہاں سے زوال کا سفر اچانک اور بہت تیز تھا۔

پریشان اور تلخیوں سے بھرا ہوا شخص. جس کی گاڑی پر (1971 میں) کراچی کی کالج کی درجنوں لڑکیوں نے دھاوا بول کر لپ اسٹک سے سرخ کردیا تھا، آخر نشے کا شکار ہو کر تاریک راہوں میں پہنچ گیا۔

جب وہ 1982 میں ایک ٹی وی شو (انور مقصود کے شو سلور جوبلی) میں آئے، تو وہ تھکے ماندے نظر آئے،ان کی آنکھوں کے نیچے گہرے تاریک حلقے بن گئے تھے. وہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے کوئی شخص نروس بریک ڈاﺅن کے دہانے پر کھڑا ہو۔

کئی سالوں تک ان کا ساتھ نبھانے والی ان کی اہلیہ انہیں عارضی طور پر اس وقت چھوڑ کر چلی گئی تھیں جب کچھ فلم پروڈیوسرز نے وحید مراد کو بڑی اسکرین پر ہیرو کے کردار میں واپسی کی پیشکش کی (مگر کچھ شرائط کے ساتھ)، وحید مراد تیار ہوگئے۔

مگر 1982 کی ایک معمولی ہٹ فلم آہٹ میں لگا کہ انہوں نے اپنا ہی کردار ادا کیا — ایک دل شکستہ شخص جس کے اردگرد خالی بوتلیں، ادویات اور درخشاں زندگی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔

مگر قسمت انہیں زوال کے گڑھے میں مزید نیچے لے گئی۔ 1983 کی ابتداء میں جب وہ سکون آور ادویات استعمال کرنے کے بعد گاڑی چلا رہے تھے، تو انہوں نے گاڑی ایک درخت میں مار دی جس سے ان کے چہرے پر ایک خوفناک نشان پڑ گیا۔

حادثے کے بعد وحید مراد نے اپنے دو بچوں اور فلمی پروڈیوسرز کے (خالی) وعدوں میں سکون ڈھونڈنے کی کوشش، جو اس شخص کو مسلسل ' ہاں' کہنے پر مجبور تھے جس نے ماضی میں انہیں لاکھوں روپے کمانے میں مدد دی تھی، مگر ظاہر ہے کہ وہ وحید مراد کی خدمات دوبارہ حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ تو محض ہمدردی کا اظہار تھا۔

پھر آخرکار وہ ہوا۔ 1983 میں 46 سالہ سابق اسٹار، دلوں پر حکمرانی کرنے والے اور سینما کے پارس پتھر کو ان کے ایک دوست کے گھر کے بیڈ روم میں مردہ پایا گیا۔ ان کی موت کی وجہ طرح طرح کی نفسیاتی ادویات کا اوور ڈوز تھا، مگر متعدد کا ماننا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود کیا۔

ایک فلمی ناقد نے ماتم کرتے ہوئے کہا کہ یہ گولیاں اور نشہ نہیں تھا جس نے وحید مراد کو مارا۔ یہ ٹوٹا ہوا دل تھا جو ان کی زندگی لے گیا۔

جب میں نے یامین کو یہ سب بتایا تو اس نے اتفاق کیا 'بالکل'۔ مگر اچانک ہی وہ اٹھا اور خاموشی سے دکان سے باہر نکل گیا۔ اس کے ملازم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ (یامین) ٹھیک ہو جائیں گے مگر اس نے یہ بھی کہا: 'کہا تھا نا، پراچہ صاحب، یاور بھائی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا آپ نے۔'

دو دن بعد جب میں دوبارہ دکان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ پوسٹر اتار دیا گیا۔ میں نے قدرت سے اس بارے میں پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ یامین نے اسے ہٹا دیا تھا اور کسی جگہ پھینک دیا ہے۔

میں نے پوچھا اور یامین کہاں ہے۔

قدرت نے بتایا 'وہ ریٹائر ہو گئے ہیں۔'


آج 23 نومبر کو وحید مراد کا یومِ وفات ہے.

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 15 نومبر 2015 کو شائع ہوا.

تبصرے (2) بند ہیں

RIZ Nov 23, 2016 03:15pm
kya dil ko chooti tehreer hai,, NFP kamal ka likhty hain,,
Waseem Nov 23, 2016 06:15pm
یہ مضمون کچھ پڑھا پڑھا سا لگ رہا ہے۔کیا یہ پہلے بھی کہیں چھپ چکا ہے؟