افغان مہاجرین کے پاکستان قیام میں توسیع

31 دسمبر 2015
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار : فائل فوٹو/ اے پی
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار : فائل فوٹو/ اے پی

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سینیٹ کو بتایا ہے کہ افغان مہاجرین کے مسئلے پر شدید تحفظات کے باوجود ان کے پاکستان میں قیام میں توسیع دینے کے سوا حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے گذشتہ 6 ماہ میں ہونے والی پیش رفت پر پارلیمنٹ کے اپرہاؤس کو بریفنگ دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس جانے کے لیے دی جانے والی ڈیڈ لائن جمعرات کے روز ختم ہورہی ہے۔ لیکن یہ حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ آسانی سے 30 لاکھ افراد کو دھکیل دے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت کے علاوہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو افغان مہاجرین کے ملک میں قیام کو توسیع دینے پر ’شدید تحفظات‘ موجود ہیں، لیکن ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے وزارت (سفرون) نے مہاجرین کو زبردستی بے دخل کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ افغان حکومت اسلام آباد پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ مہاجرین کے قیام میں توسیع کرے۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں شروع ہوا، اجلاس کے دوران سینیٹرز نے ناصرف چوہدری نثار سے سوالات کیے بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد میں ناکامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

سینیٹ کی کارروائی کے آغاز میں ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت حکومت کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کی تفصیلات پر مشتمل ایک 4 صفات پر مشتمل دستاویز پیش کی۔

خیال رہے کہ 16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے اتفاق کیا تھا۔

وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن عسکریت پسندوں، ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کے مکمل خاتمے کے لیے وقت درکار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ اور ’حالات بھی نارمل نہیں ہوئے لیکن یہ بہتری کی جانب جارہے ہیں‘۔

چوہدری نثار نے دعویٰ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 میں سے 15 نکات پر ’پیش رفت اطمینان بخش‘ ہے۔

بقیہ 5 نکات پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے جس میں سے ایک افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

وزیر داخلہ کے مطابق دیگر 4 نکات میں فاٹا اصلاحات، کرمنل جسٹس سسٹم میں بہتری، کالعدم تنظیموں کے دیگر ناموں کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کو روکنا اور سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے قانون سازی شامل ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ خیبر پختون خوا کی حکومت کو فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ٹاسک دیا گیا تھا لیکن اب وزیراعظم نواز شریف نے اس حوالے سے تجاویز مرتب کرنے کے لیے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی زیر صدارت ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

انھوں ںے کہا کہ سائبر بل کافی عرصے سے قومی اسمبلی میں تعطل کا شکار ہے۔ جسے جتنا جلد ممکن ہو منظور کرلیا جانا چاہیے۔

چوہدی نثار نے حالیہ دنوں میں بہتر تعاون کے ذریعے بیشتر دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنانے پر حساس اداروں کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جے آئی ڈی) جون کے اختتام تک کام کا آغاز کردے گا۔

انھوں نے سینیٹ کو بتایا کہ قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی(نکٹا) کے لیے ایک ارب 6 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کچھ سینیٹرز کی جانب سے کیے جانے والے دعوؤں کو مسترد کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کالعدم تنظیموں کے اراکین اُمیدوار کے طور پر شریک تھے۔

وزیر داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک میں مکمل امن کے قیام کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ مجموعی طور پر ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا کردار اہم ہے لیکن اس حوالے سے کچھ کریڈٹ تو سول حکومت کو بھی دیا جانا چاہیے‘۔

انھوں ںے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل صرف فوجی آپریشن میں نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کروانا صرف ان کی وزارت کی ذمہ داری نہیں اور انھیں صرف اور صرف نیشنل ایکشن پلان کے لیے کوآرڈینیٹر طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 وفاقی وزارتیں، جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) اور تمام صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کی عمل درآمد کی ذمہ دار ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ملک کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک ایجنڈا ہے اور کسی کو اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ انھوں ںے مزید کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر سیاست کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ملک کی سلامتی اور سالمیت سے کھیلنا‘۔

لال مسجد پر سینیٹ اراکین کی جانب سے کی جانے والی تنقید، جو کہ بیشتر پی پی پی کے اراکین کی جانب سے کی گئی تھی، کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کارروائی کرنے لیے کوئی بھی ’قابل تفتیش ثبوت‘ موجود نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ مولانا اور ان کی اہلیہ نے ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ گذشتہ دو حکومتوں نے لال مسجد کے خطیب کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسلام آباد میں ایک خونی آپریشن کیا۔

یہ خبر 31 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

تبصرے (0) بند ہیں