انقلابی رہنما ماؤ زی تنگ کے اقوال پر مشتمل کتاب پورے چین میں مقبول ترین کتاب بن گئی تھی۔ 1964 میں پہلی بار شائع ہونے والی کتاب ریڈ بک (سرخ کتاب) کے نام سے مقبول ہو گئی تھی اور 1960 کی دہائی کے اواخر تک اس کی کتاب کی لاکھوں کاپیاں فروخت اور تقسیم کی گئی تھیں۔

ملک کے سینئر ترین کمیونسٹ رہنما ماؤ زی تنگ کے شروع کردہ ہنگامہ خیز ’ثقافتی انقلاب’ کے دوران اس کتاب نے مرکزی ستون کی حیثیت حاصل کر لی تھی، یہ انقلاب، ماؤ زی تنگ کی وفات کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا مگر تب تک یہ کتاب 117 ملکوں میں 20 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی تھی۔ ہنگاموں میں سینکڑوں چینی باشندوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ کٹر کمیونسٹ نوجوانوں کی جانب سے ’سرمایہ دارانہ بورژوائی’ سمجھے جانے والوں اور ’انقلاب مخالفین’ کے خلاف ’انقلابی پرتشدد’ کارروائیوں کو ریڈ بک میں چمکتے ماؤ کے کئی دانشمندی کے موتیوں کی روشنی میں درست قرار دیا گیا۔

دنیا میں موجود ’ماؤسٹ’ افراد کے لیے، یہ کتاب ایک سیاسی پروپیگنڈا بن گئی تھی اور حتیٰ کہ اس کتاب نے دیگر رہنماؤں کو بھی اپنی کتابیں منظر عام لانے کے لیے متاثر کیا حالانکہ ان کا کمیونزم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

ایسے رہنماؤں میں سے ایک پاکستان کے ایوب خان بھی تھے، جو 1958 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ انہوں نے تیزی سے ہوتی صنعت کاری، اقتصادی ترقی اور ظاہری سیکولر سیاسی اور ’مسلم جدیدیت پسند’ کی بنیاد پر سماجی ماحول کے ساتھ ایک مضبوط حکومت قائم کی تھی۔ ان کی حکومت نے اپنے پہلے 6 برسوں کے دوران زبردست حد تک مقبولیت حاصل کی، حالانکہ اکثر اوقات دائیں جانب سے مذہبی گروپس نے ان کی حکومت کو غیر مذہبی ہونے پر مذمت کی اور بائیں جانب سے سوشلسٹوں نے حکومت میں ایوب کے آمرانہ مزاج اور شدید سرامیہ دارانہ روش پر مذمت کی۔

1967 تک، حکومت مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ ہندوستان کے خلاف 1965 کی جنگ کے بعد اقتصادی زوال شروع ہونے کے ساتھ ہی سیاسی تناؤ سڑکوں پر بھی نظر آنے لگا تھا۔ اس دور میں ماؤ کے ریڈ بک کی طاقت جس طرح پورے چین میں استعمال ہو رہی تھی، اس سے متاثر ہو کر وزارت اطلاعات نے ایوب کی کئی تقاریر سے اقتباسات چن کر کتاب کی صورت دینے کا فیصلہ کیا۔ اسے گرین بک یا سبز کتاب کا نام دیا گیا۔ 2 اپری، 1967 کو ڈان اخبار میں کتاب کی رونمائی کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تھی۔ کتاب کو اسکولوں اور کالجوں میں تقسیم ہونا تھا۔

ایوب خان نے پرتشدد احتجاجی مہم کے نتیجے میں مجبور ہو کر دو سال بعد استعفی دے دیا۔ کتاب بھی غائب ہو گئی اور پھر کبھی ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم 1992 میں، میں ایک فراموش کردہ، کنارہ کشی اختیار کرنے والے دانشور مرحوم ڈاکٹر مکری کی لائبریری میں کتاب کی پرانی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

کتاب ادھار ملنے سے انکار پر میں نے جلدی جلدی کتاب کا اوپر اوپر سے جائزہ لینا شروع کیا۔ ماؤ کی کتاب کا کور سرخ رنگ کا تھا جس پر زرد رنگ سے ’چیئر مین ماؤ کے اقوال’ لکھا ہوتا تھا۔ ایوب کی کتاب کا کور ہلکے سبز رنگ کا تھا جس پر ’صدر جمہوریہ پاکستان: ایوب خان کے اقوال’ لکھا ہوا تھا۔ ریڈ بک کی ہی طرح، گرین بک بھی جیبی سائز کی تھی۔ کتاب میں جدیدیت، اقتصادی ترقی، فنون اور اسلامی جدیدیت پسندی کے موضوعات پر ایوب خان کے اقوال شامل تھے۔

1975 میں، پاکستان نے ایک دوسری اقوال پر مشتمل کتاب نمودار ہوئی، اس بار یہ کتاب ذوالفقار علی بھٹو حکومت (1971-77) کی جانب سے شائع کی گئی تھی۔ جس کا عنوان، چیئرمین بھٹو کے اقوال رکھا گیا تھا، اس کتاب کو جولائی 1977 میں مرتب کیا گیا اور ایک سال بعد اسے تقسیم کیا گیا۔ یہ کتاب بھی جولائی 1977 میں بھٹو زوال کے بعد غائب ہو گئی، اس کتاب کی ایک کاپی میری لائبریری میں موجود ہے۔ میں نے یہ کتاب 1988 میں سندھ کے مٹیاری ضلعے میں واقع صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی مزار کے باہر موجود ایک بک اسٹال سے خریدی تھی۔

کتاب کے کور پر بھٹو کی پارٹی کے تین رنگوں والا جھنڈا اور ان کی واٹر کلر پینٹنگ موجود تھی۔ کتاب شامل اقوال 1965 سے 1973 کے عرصے کے دوران کی گئی تقاریر سے چنے گئے تھے۔ زیادہ تر اقوال سوشلزم/’اسلامی سوشلزم’، مغربی سامراجیت/کولونیل ازم، پاکستان کی سیکورٹی اور ’خطے میں ہندوستان کے خطروں سے بھرے منصوبوں’ کے بارے میں تھے۔ جنرل ضیا، جس نے بھٹو کی حکومت گرا دی تھی، نے فوری طور پر کتاب کی سرکولیشن ختم کردی۔

1969 میں لیبیا کا اقتدار سنبھالنے والے معمر قذافی نے بھی 1975 میں ’گرین بک’ شائع کی تھی۔ اس میں ان کے اقوال نہیں تھے کیونکہ انہوں نے خود ہی یہ لکھی تھی۔ جس طرح (1976 تک) چین میں ریڈ بک پڑھنا لازمی ہو گیا تھا، اسی طرح قذافی کی کتاب بھی لبیا میں لازمی پڑھی جانے والی کتاب ہو گئی تھی۔ بلکہ 2011 میں ان کی حکومت کے زوال تک ایسا ہی رہا۔ میرے پاس اس کتاب کی بھی ایک کاپی ہے۔ اور، بلاشبہ، جس طرح محمد بازی نے اس کتاب پر نیو یارک ٹائمز میں 2011 میں دیر کے ساتھ ہی تبصرے میں درست لکھتے ہیں کہ یہ کتاب، ’یوٹوپیائی سوشلزم، ارب قوم پرستی اور تیسری دنیا کے انقلابی نظریے کا ایک ملغوبہ ہے جو ان دنوں میں کافی مقبول تھا جب یہ کتاب لکھی گئی تھی۔’ قذافی کے زوال کے بعد اس کتاب کی کئی کاپیاں نذر آتش کی گئی تھیں۔

پاکستان کے رجعت پسند فوجی آمر جنرل ضیا (1977-89) نے بھی کتاب شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جس میں ان کے ’اسلامی وژن’ پیش کیا گیا ہو۔ خالد احمد اپنی 2011 میں شائع ہونے والی کتاب، پاکستان بیانڈ دی آڈیولوجیکل ماسک میں لکھتے ہیں کہ آمر حکومت کی وزارت اطلاعات نے اس سے بھی بہتر خیال پیش کیا۔ وزارت نے ضیا کے ’اسلامی ریاست’ کے خیال کو زبان دینے کے لیے بانی پاکستان، محمد علی جناح (وفات 1948) کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1983 میں ضیا نے اعلان کیا کہ بانی پاکستان کی ایک کھوئی ڈائری مل چکی ہے۔

ضیا نے واضح کیا کہ ڈائری میں جناح نے ’ریاست کا سربراہ طاقتور’ ہونے اور پارلیمانی جمہوریت کے خطروں کے بارے میں باتیں کی ہیں۔ پھر ضیا بڑی ہی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچے کہ جناح کے خیالات ’ایک اسلامی نظام حکومت کے قیام کی طرف اشارہ’ کرتے ہیں۔

اردو پریس اور سرکاری میڈیا نے تقریب کو زبردست کوریج دی، یہاں تک کہ مبینہ ڈائری میں سے ایک ورق کو بھی شائع کیا گیا۔ یہ سب ایک گمراہ کن فراڈ تھا۔ جناح کے دو قریبی ساتھیوں، ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید، نے ضیا کے دعووں کو یہ کہہ کر بکواس قرار دیا کہ ایسی کسی ڈائری کا کبھی وجود ہی نہیں رہا ہے۔

قائد اعظم اکیڈمی کے سینئر دانشوروں کے ایک گروپ نے بھی اکیڈمی کے آرکائیوز (جہاں سے ضیا نے ڈائری برآمد ہونے کا دعویٰ کیا تھا) میں ایسی کسی ڈائری موجود ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت نے فوری طور پر مگر خاموشی کے ساتھ اس ’ناقابل یقین دریافت’ کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Apr 25, 2017 10:06pm
ندیم پھر کیا ہوا؟
ahmak adami Apr 26, 2017 11:56am
@KHAN phir khamohoshi hey?