ہونڈا موٹر کمپنی کے ماتحت ادارے ہونڈا اٹلس کار( پاکستان) لمیٹڈ کی پاکستان آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ایندھن کے حوالے سے دی جانے والی شکایت پر پاکستان میں آٹو انڈسٹری اور آئل انڈسٹری بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔

خیال رہے کہ ہونڈا اٹلس کار( پاکستان) لمیٹڈ نے اوگرا میں شکایت درج کرائی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں میگنیز کی زیادہ مقدار سے ان کی گاڑیوں کے انجن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

جس پر (اوگرا) نے کہا ہے کہ وہ پیٹرول میں میگنیز کی زیادہ مقدار ملانے کے حوالے سے موصول شکایت پر گاڑیوں کے ایندھن فراہم کرنے والے ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)، شیل پاکستان اور ٹوٹل پیٹرولیم کے خلاف تحقیقات کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ انہیں گاڑیوں کے انجن میں ایندھن کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کے پاس 4 مختلف اقسام کے انجم ہیں اور تمام ہی یورو ٹو ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور ان میں سے کسی بھی انجن کے حوالے سے شکایت موصول نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں: ہونڈا سوک ٹائپ آر 2018 فروخت کے لیے پیش

پاک سوزوکی کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار نے بھی یہی کہا کہ کمپنی کو انجن میں ایندھن کی وجہ سے خرابی کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئیں۔

تاہم ہونڈا کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ہونڈا کمپنی کے انجن یورو 4 قسم کے ہیں، جن کے لیے مزید ریفائنڈ ایندھن کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی گزشتہ ایک دہائی سے یورو 4 ٹیکنا لوجی کے حامل انجن تیار کر رہی ہے تاہم کم ریفائنڈ ایندھن کی وجہ سے نہ صرف انجن میں مسائل پیدا ہورہے ہیں بلکہ اس سے گاڑی کے استعمال شدہ ایندھن کے دھوئیں کے اخراج کے نظام میں بھی خرابی پیدا ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایندھن میں میگنیز اور سلفر کی زیادہ مقدار موجود ہونے کی وجہ سے کیٹالیٹک کنورٹر میں خرابی پیدا ہو تی ہے جبکہ مستقبل میں ہر گاڑی کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ہونڈا سوک ایس آئی 2017 پہلی بار ٹربو انجن کے ساتھ

ہونڈا کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ کمپنی نے انجن کو تشخیص کے لیے جاپان اور پاکستان میں فروخت ہونے والے پیٹرول کو جرمنی بھیجا جس میں یہ معلوم ہوا کہ پاکستانی مارکیٹ میں ملنے والے پیٹرول میں سلفر اور میگنیز کی مقدار بہت زیادہ ہے۔

ادھر آئل کمپنیوں اور ریفائنریز کے نمائندہ ادارے مشورتی کونسل برائے آئل کمپنی (او سی اے سی) نے ہونڈا کی جانب سے اوگرا کو دی جانے والی شکایت پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں فروخت ہونے والا ایندھن وزارت توانائی اور پیٹرولیم کی جانب سے منظور شدہ وضاحتوں کے عین مطابق ہے لہٰذا غیر معیاری ایندھن کی فروخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے‘۔

او سی اے سی کے صدر آفتاب حسین نے کہا کہ ہم میگنیز سے متعلق نمونے جمع کر رہے ہیں تاہم اس پر تحقیق کے بعد ہی مزید کچھ کہا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ ایندھن کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے میگنیز ملایا جاتا ہے جس سے ایندھن کا خرچ کم ہوتا ہے تاہم اس کے اخراج سے انسانی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Modasar Chaudhry Nov 04, 2017 03:03pm
It does not suit Honda to complain about the Fuel when it’s a beneficiary itself. What to talk about Euro engines when the equipment and safety standards are outdated.