قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

سماعت کے دوران نیب کی جانب سے دلائل پیش کیے جانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے وکیل عمران الحق سے استفسار کیا کہ شریف خاندان لاہور ریفرنس ختم کروانے گئی تو نیب جاگی، کیا کیس دوبارہ کھولنا دوبارہ چلانے میں نہیں آئے گا؟۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں آپ دوبارہ اپنے ملزمان کے خلاف تحقیقات مانگ رہے ہیں جبکہ کیس کے میرٹس ہم دیکھ چکے ہیں۔

تاہم انہوں نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے کچھ دیر میں سنائے جانے کا اعلان کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نیب کی اپیل کو مسترد کرنے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اپیل مسترد کرنے کی وجوہات تحریری فیصلے میں بتائی جائیں گی۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ کیس میں کب کیا ہوا؟ مکمل جائزہ

سماعت کے دوران عدالت کے ریمارکس

سماعت کے دوران وکیل نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ریفرنس کھولنے کی اجازت دی جائے۔

جس پر ججز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس بیان پرآپ کیس چلارہے ہیں وہ دستاویزات آپ نے لگائی ہی نہیں ہیں، سالوں کیس چلا اور چارج فریم نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ آپ کی نیت کا پتہ تو احتساب عدالت کی کارروائی سے چلے گا

انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ بہت دلچسپ ہے کہ ریفرنس تب فائل ہوا جب جنرل مشرف کی حکومت تھی اور چیئرمین نیب کو بھی جنرل مشرف نے لگایا اور چیئرمین کے دستخط کا حکم ملا تو دو سال بعد درخواست دی جس کے بعد نیب درخواست دائر کرکے بھول گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکم امتناعی کی درخواست کے بھی ایک سال بعد نیب نے احتساب عدالت سے رابطہ کیا اتنے سالوں سے نیب کیا کر رہا ہے۔

جو ریکارڈ نہیں ہے کہہ دیں نہیں ہے ہمیں معلوم ہے آپ اس سب کے ذمہ دار نہیں۔

جس پر نیب کے وکیل عمران الحق کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط یا صحیح تھا لیکن اپیل دائرنہیں کی گئی۔

جس پر ججز کا کہنا تھا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں مشرف کے لگائے گئے چئیرمین نیب نے ارادتاً کیس خراب کیا؟ آپ کو کہنا چاہیے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ پیپرملز ریفرنس: جج کی غیر حاضری پر سماعت ملتوی

انہوں نے کہا کہ نیب کے کام میں مداخلت کرنے والے کے خلاف بھی کاروائی ہوسکتی ہے، کیا ریفرنس تب استعمال کریں گے جب ضرورت پڑے گی؟

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ہم نے نیب کا رویہ دیکھنا ہے، آرٹیکل 37 تیز ترین پراسیکیوشن کا کہتا ہے جبکہ یہاں شریف برادران جب لاہور ریفرنس ختم کروانے گئی تب نیب جاگی تھی۔

تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرٹس آف دی کیس ہم دیکھ چکے ہیں اب فیصلہ سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ رواں برس 10 نومبر کو حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق نیب کی اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

تاہم 13 نومبر کو حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کیے گئے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔

بعدِ ازاں اس کیس کی سماعت کے لیے بینچ دوبارہ تشکیل کرنے کا معاملہ واپس چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاخیل پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے 28 نومبر کو اس کیس کی سماعت کی۔

عدالت عظمیٰ نے نیب سے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

بعدِ ازاں نیب کی جانب سے نئے پروسیکیوٹر کی تقرری تک سپریم کورٹ میں کیس کے التواء کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

11 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کو براہِ راست ٹیلی ویژن پروگرامز میں زیر بحث لانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس 17 برس قبل سَن 2000 میں دائر کیا تھا، تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔

اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں