اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے خلاف فیصلے پر کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کا پارٹی صدارت سے نااہلی کا فیصلہ ان کے لیے غیر متوقع نہیں۔

احتساب عدالت کے باہر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے اس سے قبل حکومت کو مفلوج کرتے ہوئے ایگزیکٹیو کو نااہل قرار دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چند روز قبل پارلیمنٹ میں جبکہ دیگر مواقع پر وزیر مملکت مریم اورنگزیب اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی اس ہی طرح کے ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 28 جولائی 2017 کا جو فیصلہ تھا اس میں وزارتِ عظمیٰ چھین لی گئی، 21 فروری 2018 کے فیصلے میں مجھ سے پارٹی کی صدارت بھی چھین لی گئی۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ: سینیٹ اور قومی اسمبلی کو فریق بنانے کی درخواست مسترد

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس اب میرا نام ’محمد نواز شریف‘ باقی رہ گیا ہے، آئین میں کوئی شق نکال کر مجھ سے وہ بھی چھیننا چاہتے ہیں تو چھین لیں۔

نواز شریف نے کہا کہ اگر میرا نام چھیننے کے لیے آئین میں کوئی شق نہیں ملتی تو ’بلیک لا ڈکشنری‘ کی مدد لے کر میرا نام چھین لیا جائے جس طرح 28 جولائی کو وزارتِ عظمیٰ چھیننے کے لیے بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ والد کو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر اور اقامہ رکھنے کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا جائے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات بل کے حوالے سے گزشتہ روز سامنے آنے والے فیصلے کی بنیاد بھی 28 جولائی کا ہی عدالتی فیصلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات بل کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی صدارت چھین لینے کے بعد اب اس چیز پر غور کیا جارہا ہے کہ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔

یاد رہے کہ رواں برس 21 فروری کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا پارلیمنٹ کے لیے نااہل قرار دیے جانے والا شخص سیاسی جماعت کی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا، جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔

نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کا معاملہ — کب، کیا ہوا؟

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیس فیصلہ:’جمہوری تاریخ میں فیصلےکی مثال نہیں ملتی‘

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی پارلیمنٹ سے منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں قانون دان ذوالفقار بھٹہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے، کیونکہ اس کے تحت عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا شخص پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار پائے گا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل ’63 اے‘ کے تحت پارٹی صدر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی اہم امور پر قانون سازی کو کنٹرول کرتا ہے اور اگر اہم امور پر کوئی رکن پارلیمنٹ پارٹی صدر کی مرضی کے خلاف ووٹ دے تو اس کا کیس الیکشن کمیشن کو نااہلی کے لیے بھجوایا جاتا ہے۔

6 نومبر 2017 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

22 نومبر کو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کو چیلنج کرنے پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو ختم کرتے ہوئے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، شیخ رشید اور جمشید دستی سمیت 9 درخواست گزاروں نے ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف پاناما کیس میں نااہلی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے اہل ہوگئے تھے۔

گزشتہ برس 22 دسمبر کو سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

MobilyOM Feb 22, 2018 12:37pm
Well done court, the same should be done with all corrupt.