جارحیت کی گئی تو بھارت کو حیران کردیں گے، پاک فوج

اپ ڈیٹ 27 فروری 2019
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نےمختلف امور پر بات چیت کی— اسکرین شاٹ
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نےمختلف امور پر بات چیت کی— اسکرین شاٹ

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور دہشت گردی کی، ہم جنگ میں داخل ہونا نہیں چاہتے لیکن یقین دلاتے ہیں کہ اگر بھارتی جارحیت ہوئی تو ہم انہیں حیران کردیں گے اور ہر خطرے کا بھرپور صلاحیت سے جواب دیں گے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ 14 فروری کو پلوامہ میں قابض بھارتی فوج کو کشمیری نوجوان نے نشانہ بنایا اور جیسا ہوتا ہے کہ واقعے کے فوری بعد پاکستان کے اوپر بھارت نے بغیر سوچے، بغیر کسی ثبوت کے الزامات کی بارش کردی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس دفعہ جواب دینے کے لیے تھوڑا سا وقت لیا ہے، وقت اس لیے لیا کیونکہ جو الزامات ہم پر لگائے گئے تھے اس کی اپنے تئیں تحقیق کی تھی اور پھر ہمارے وزیراعظم نے اس پر جواب دیا تھا۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم ففتھ جنریشن جنگ کے خطرے میں ہیں اور اس کا ہدف نوجوان نسل ہے، پاکستان کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو میں تھوڑا سا حوالہ دے دوں کہ نوجوان نسل سمجھ لے کہ کیسے بات چیت چل رہی ہے۔

مزید پڑھیں: 'پلواما حملے پر بھارت کی الزام تراشیاں بے بنیاد ہیں'

انہوں نے کہا کہ ہماری 72 سال کی تاریخ ہے،1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان آزاد ہوا، اس حقیقت کو بھارت آج تک قبول نہیں کرسکا، 1947 اکتوبر میں بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا اور 72 سال سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 1965 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہوئی اور بھارت اسے بین الاقوامی بارڈر پر لے آیا اور وہاں اسے شکست ہوئی لیکن ہم ایک نوزائیدہ ملک تھے، ہمارے وسائل اور فوج بھی کم تھی تو اس وقت ہمارا ملک جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس جنگ کے اس پر اثرات مرتب ہوئے، 1971 میں مشرقی پاکستان سے جو ہمارا زمینی فاصلہ تھا اور جو وہاں کے مسائل تھے اسے بھارت نے استعمال کیا، مکتی باہنی کا کردار آپ کے سامنے ہے اور موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا اس حوالے سے بیان بھی آپ کے سامنے ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اصل دہشت گردی بھارت نے تب کی جب مکتی باہنی کے ذریعے وہاں پر حالات خراب کروائے گئے لیکن پاکستانی قوم اس سانحے سے بھی سنبھل گئی، اس کے بعد 1971 سے لے کر 1984 تک ایسا عرصہ تھا جس میں ہماری مشرقی سرحد پر کسی قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، حالات پرسکون تھے، ایل او سی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ہم نے ایک طریقے سے دوبارہ استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا شروع کیا لیکن پھر سیاچن کا واقعہ ہوا، ایک ایسا علاقہ جہاں افواج پاکستان کی موجودگی نہیں تھی وہاں پر بھارت نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا اور اس وقت سے لے کر اب تک دنیا کے بلند ترین مقام پر افواج پاکستان ڈٹی ہوئی ہیں اور مقابلہ کررہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مودی بھارت میں مقیم کشمیریوں کو حملوں سے بچائیں، ایمنسٹی

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیا، جس کے بعد 1998 میں ہم نے اپنے دفاع کے لیے جوہری طاقت حاصل کی کیونکہ اس کی مدد سے بھارت کی جانب سے ہم پر روایتی جنگ مسلط کرنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ امکانات ختم ہوئے تو بھارت نے غیرروایتی حکمت عملی اپناتے ہوئے ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینا شروع کیا، 2001 میں جب عالمی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو بھارت نے مشرقی سرحد پر کشیدگی شروع کردی اور ہماری توجہ اس طرف ہوگئی، اگر اس وقت ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ مغربی سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی دہشت گردی کو داخل نہ ہونے دیتے اور وہ دہشت گردی اتنی نہ پھیلتی جتنی اس کے نتیجے میں پھیلی۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے تھے اور ہمیں کامیابیاں مل رہی تھیں تو ایک مرتبہ پھر بھارت اپنی افواج کو سرحد پر لے آیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت، دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو روکنا چاہتا تھا جس کا زندہ ثبوت کلبھوشن کی صورت میں ہمارے پاس موجود بھی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے موہالی اسٹیڈیم سے پاکستانی کھلاڑیوں کی تصاویر ہٹا دیں

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 1988، 1989 میں پاکستان نے میں دو طرفہ بات چیت کا آغاز کیا، پاکستان نے ہمیشہ امن کی پیشکش کی، 2003 میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن کی اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے لیے ایک معاہدہ کیا، تاہم گزشتہ 2 برس میں بھارت نے اس معاہدے کی تاریخ میں سب سے زیادہ خلاف ورزی کی جبکہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 5 کراسنگ پوائنٹس بھی قائم کیے۔

آصف غفور نے کہا کہ 2004 سے 2008 تک 5 مرتبہ ہماری مذاکرات کے لیے بیٹھک بھی ہوئی لیکن اس مرحلے کو بھی ممبئی حملے جیسے تناظر میں بھارت نے ختم کردیا۔

پاکستان میں کوئی بھی ایونٹ ہو تو بھارت میں ایسا واقعہ پیش آجاتا

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں کوئی بہت اہم ایونٹ ہو، پاکستان کے استحکام میں بہتری آرہی ہو تو بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا ہے، اگر آپ دیکھیں تو دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اس وقت وہاں 2002 میں عام انتخابات اور صدارتی انتخابات ہونے تھے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سیشن بھی تھا جبکہ یہ وہی وقت تھا جب 11 ستمبر کے بعد پاکستان میں مغربی سرحد سے دہشت گردی ملک میں داخل ہونا شروع ہوئی۔

اپنی گفتگو کے دوران ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ممبئی حملہ جو 26 سے 29 نومبر 2008 میں ہوا اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کارکردگی بہت اچھی جارہی تھی اور اس وقت بھی بھارت میں عام انتخابات نزدیک تھے، اس کے بعد 2 جنوری 2016 کو پٹھان کوٹ حملہ ہوا، اس وقت امریکی صدر نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب دینا تھا، بھارت میں ریاستی انتخابات قریب تھے اور پاکستان اور بھارت کی خارجی سطح کی بات چیت طے تھی جس پر اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ 18 ستمبر 2016 کو اُڑی واقعہ ہوا، اس وقت ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے لیے جانا تھا تو یہ واقعات کا وقت بتایا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی اہم ایونٹ ہونا ہو تو اس طرح کا اسٹیج ایکشن ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے اقدام پر پاکستان کا متعدد تجارتی آپشنز پر غور

پلوامہ واقعے پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 فروری کو جب پلوامہ میں حملہ ہوا تو فروری-مارچ میں پاکستان سے متعلق 8 بہت ضروری ایونٹ ہورہے تھے، سعودی ولی عہد کا پاکستان کا دورہ تھا اور سرمایہ کاری سے متعلق کانفرنس تھی، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں دہشت گردوں کی فہرست پر بات چیت ہونی تھی، افغان امن عمل میں بھی پیش رفت ہورہی تھی، یورپی یونین میں اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات چیت ہونی تھی، عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے اہم سماعت ہونی تھی، ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ پر بات چیت اور پاکستان کے لیے فیصلہ ہونا تھا، کرتار پور بارڈر میں پیش رفت پر دونوں ممالک کی ملاقات اور پاکستان سپر لیگ کے میچز جو اس وقت جاری ہیں پاکستان میں آنے تھے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ یہ وہ ایونٹس تھے جو پاکستان میں ہورہے تھے یا پاکستان سے وابستہ تھے، اس کے ساتھ ہی بھارت میں آج کل انتخابات کا ماحول چل رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد اس وقت عروج پر ہے اور بھارت کے قابو سے باہر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جیسا وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ایک ایسی سرگرمی میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے، ان 8 ایونٹ کے تناظر میں پلوامہ میں حملے کا پاکستان کو کیا فائدہ ہے؟ اس میں پاکستان کو نقصان ہے، میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچتا۔

مزید پڑھیں: ’بھارت پانی روکتا بھی ہے تو پاکستان کو فرق نہیں پڑے گا‘

آصف غفور نے کہا کہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کردیا جائے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح غیر ملکی سربراہان، سفارتی لوگ اور سرمایہ کاری پاکستان میں آرہی ہے اور سی پیک پر ترقی ہورہی ہے، اس کے علاوہ پاکستانی افواج کی دیگر ممالک کے افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں ہوئی ہیں، یہاں تک کہ روس اور چین اور امریکی ایئرفورس کے ساتھ بھی مشترکہ مشق ہوئی۔

پریس بریفنگ کے دوران پلوامہ واقعے پر مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر اس واقعے کو غور سے دیکھیں تو لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کا لیئر ڈیفنس سسٹم موجود ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کوئی بھی شخص ایل او سی کو پار کرے اور ایسا علاقہ جہاں سیکیورٹی فورسز کی تعداد وہاں کی آبادی سے بھی زیادہ ہے اور 70 سال سے آپ (بھارتی فوج) وہاں بیٹھے ہیں وہاں سے در اندازی ہوجائے تو انہیں اپنی سیکیورٹی فورسز سے پوچھنا چاہیے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ لائن آف کنٹرول سے میلوں دور یہ واقعہ ہوا ہے اور اس میں جو دھماکا خیز مواد استعمال ہوا ہے وہ وہاں کی سیکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کے زیر استعمال تھا، وہ پاکستان سے نہیں گیا، جس گاڑی کو استعمال کیا گیا وہ مقامی گاڑی تھی وہ گاڑی پاکستان سے نہیں گئی تھی اور حملہ جس کشمیری نوجوان نے کیا وہ مقبوضہ کشمیر کا مقامی لڑکا تھا، اس نوجوان کی تاریخ بھی دیکھ لیں کہ 2017 میں کیسے وہ زیر حراست رہا، سیکیورٹی فورسز نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا، اس کے والدین کا ویڈیو پیغام بھی ہے کہ کس طریقے سے اسے اس نہج پرلایا گیا کہ اس نے اتنا پرتشدد رد عمل دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت کی جارحانہ پالیسی سے تحریک آزادی مسلح مزاحمت میں بدل سکتی ہے‘

سوشل میڈیا پر ردعمل کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں موجود لوگوں نے سوشل میڈیا پر آج سے چند ماہ پہلے اس قسم کے حملے کی پیش گوئی کی تھی کہ انتخابات نزدیک ہیں تو کہاں کہاں واقعات ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد جو ویڈیو جاری کی گئی ہے اس کا اگر تکنیکی جائزہ لیں تو وہ بھی آپ کو بہت سے شواہد دے گا کہ وہ کس طرح کی ہے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا حالات ہیں کہ پلوامہ میں جب اس نوجوان کا جنازہ ہوا تو ہزاروں افراد نے اس میں شرکت کی تھی یہ بھی ایک اشارہ ہے کہ وہاں حالات کیا ہیں۔

پاکستان بدل رہا ہے

پاکستان کی جانب سے ردعمل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان بدل رہا ہے، ایک نئی سوچ آرہی ہے، ہم نے بہت قربانیاں دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے، اب ہم میں صبر اور تحمل ہے اور ہمارا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے خطرات کا مقابلہ کیا اور دہشت گردی کو حاوی نہیں ہونے دیا، ہم نے افغانستان میں موجود فورسز کو القاعدہ کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی، خطے میں امن کی کوشش کر رہے ہیں اور معاشی ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس کے علاوہ آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینے کی سوچ پاکستان میں آئی ہے۔

آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہم نے غلطیاں کیں اور ان سے سیکھا بھی لیکن اب نہ غلطی کی گنجائش ہے اور نہ اس کا ارادہ ہے، پاکستان نے پلوامہ واقعے کے بعد پہلے سوچا، تحقیق کی اور پھر جواب دیا اور جواب بھی ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر اعظم نے بھارت کو وہ پیش کش کی جو پہلے کبھی نہیں دی گئی، انہوں نے کہا کہ جس قسم کی چاہے تحقیقات کروالیں لیکن ثبوت دیں، اگر ثبوت ملا تو آپ کے دباؤ میں نہیں ہم اپنے مفاد میں اس فرد کے خلاف کارروائی کریں گے جو پاکستان کے ساتھ دشمنی کررہا ہے، اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے بھارتی جارحیت کےخلاف فوج کو ’مکمل‘ اختیار دے دیا

وزیر اعظم کے جواب کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ جب بھی ہم مذاکرات کی بات کرتے تھے تو بھارت کہتا تھا کہ دہشت گری پر بات کریں اور وزیر اعظم نے یہ بھی پیش کش کی کہ ہم اس پر بھی بات کرنے کو تیار ہیں لیکن دہشت گردی خطے کا مسئلہ ہے اور سب سے زیادہ پاکستان اس سے گزرا ہے تو ہم کیسے چاہیں گے کہ دہشت گردی ہو۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی کانفرنس ہوئی جس میں نیشنل ایکشن پلان پر مزید تیزی سے عمل کرنے کا فیصلہ ہوا، اس پلان کے 20 نکات تھے، اب جب ہم نے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کل وزارت داخلہ نے اس کے ایک ایک نکات پر عمل تیز کردیا ہے۔

جنگ شروع کرنے کی تیاری نہیں کررہے لیکن دفاع ہمارا حق ہے

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت میں یہ باتیں ہورہی ہیں کہ پاکستان جنگ کی تیاری کر رہا ہے، ہم جنگ کی تیاری نہیں کررہے بلکہ بھارت کی جانب سے جنگ اور بدلے کی دھمکیاں آرہی ہیں، ہم ایک خودمختار ریاست ہیں، ہمیں بھارت کی دھمکیوں کا جواب دینے کا حق ہے اور ایسا ہی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ ہم جنگ شروع کرنے کی تیاری نہیں کررہے لیکن اپنا دفاع اور ردعمل ہمارا حق ہے، جس طریقے سے پلوامہ واقعے پر ریاست پاکستان کی طرف سے مختلف ردعمل گیا، اسی طریقے سے فوجی ردعمل بھی مختلف ہوگا، ہم گزرے ہوئے کل کی افواج نہیں، ہمارے تینوں سپہ سالار سے لے کر سپاہی تک نے قدموں پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ سے جنگ لڑی ہے، ہم نے اپنے ملک کا دہشت گردی کے خلاف دفاع کیا ہے، ان دیکھے دشمن کے خلاف جنگ بہت مشکل تھی لیکن بھارت ایک معلوم خطرہ ہے، ہم نے 70 سال آپ کو پڑھا، دیکھا، آپ کے لیے ہی صلاحیت تیار کی اور جواب بھی آپ کے لیے ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جنگ میں داخل ہونا نہیں چاہتے لیکن یہ یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ کوئی جارحیت کی کوشش کریں گے تو آپ ہمیں حیران نہیں کرسکیں گے، پاکستان کی مسلح افواج آپ سے کبھی حیران نہیں ہوں گی لیکن میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کو حیران کردیں گے اور ہم ہر خطرے کا بھرپور صلاحیت سے جواب دیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ آغاز آپ کریں گے تو ہم آپ پر غالب رہیں گے، ہمارے پاس آپ کے مقابلے میں فیصلہ کن مقامات پر قوت کا تناسب زیادہ ہے۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ ہماری دوسری جگہ مصروفیت کی وجہ سے ہماری صلاحیت میں کمی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر حملہ: امریکی سفیر نے دفتر خارجہ کو اپنی حکومت کا ’اہم پیغام‘ پہنچا دیا

انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان وزیرِاعظم سے لے کر عام شہری تک، تینوں مسلح افواج کے سربراہان سے لے کر سپاہی تک، تمام سیاسی جماعتوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں ہم آہنگی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ارادے، عزائم، اور قومی مفاد حاصل کرنے کے طریقہ کار میں ہم آہنگی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ہم پوری قوت کے ساتھ آنے والے خطرے کا بھی ردِ عمل دے سکتے ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس پیغام کو سمجھیں گے اور پاکستان کے ساتھ غلط کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ امید ہے کہ بھارت کو سمجھ آگیا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الجھنے کی کوشش نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے یہ راستہ اختیار کیا کہ حملے ہوتے ہی بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزمات لگادیے، بدلہ لینے کی بات چیت شروع کردی، پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا، پاکستانی شوٹرز کو اولمپکس مقابلوں کا ویزا نہیں دیا، ٹماٹر بند کردیے۔

بھارتی میڈیا جنگی صحافت کر رہا ہے

بھارتی میڈیا پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دو طرح کے میڈیا ہوتےہیں ایک جنگ کا میڈیا اور ایک امن کا میڈیا، بھارت کا میڈیا جنگی صحافت کررہا ہے جبکہ میں پاکستانی میڈیا کو سراہنا چاہتا ہوں جو امن کو پھیلا رہا ہے اور بہت ذمہ دارانہ رپورٹنگ کر رہے ہیں اور یہی دونوں ممالک کے میڈیا کا فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس معاملے پر تحقیقات اور بات چیت کی پیش کش کی، خطے کےمعاملے خاص طور پر کشمیر پر بات چیت کرنے کی پیش کش کی، جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تشدد کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے، بھارت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیوں کشمیری اس حد پر پہنچ گئے ہیں۔

بھارت کو جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں، 2 جمہوری ملکوں میں جنگ نہیں ہوتی، اگر آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہیں تو اس کے ناموس کو بھی ذہن میں رکھیں، بھارت ایک سیکولر ملک ہے تو ایسے حالات کیوں پیدا ہوں کی اقلیتوں کو تکلیف پہنچائی جائے، پلوامہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اور بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے ساتھ جو ہوا یہ سیکولرزم نہیں ہے، بھارت ترقی اور امن چاہتا ہے تو کلبھوشنوں کو ہمارے ملک میں نہیں بھیجیں اور خطے کے امن کو تباہ نہیں کریں۔

مزید پڑھیں: پلوامہ حملہ: سینیٹر رحمٰن ملک کے بھارت سے 21 اہم سوالات

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ چند ماہ قبل بھارت سے کچھ دوست آئے تھے تو میں انہیں آرمی چیف کا پیغام دیا، پاکستان کے آرمی چیف کہتے ہیں کہ ملک تنہا ترقی نہیں کرتے نہ کرسکتے ہیں، خطے ترقی کرتے ہیں، اگر ہماری یہ سوچ ہے تو ہم جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ حکومت پاکستان کی امن کی پیش کش پر ذمہ داری سے غور کریں گے اور خطے کی امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 21 ویں صدی میں ہیں ہمارے خطے میں بہت سارے چیلنجز ہیں اور دونوں ممالک کے عوام کو بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے ناکہ جنگ کہ جس کی بھارت بات کر رہا ہے، آپ اپنی بیوقوفی کے ذریعے آنے والی نسلوں سے یہ حق نہ چھینیں، آپ پاکستان سے دشمنی کرلیں لیکن انسانیت سے نہ کریں، آپ کا رویہ انسانیت والا نہیں۔

اپنی بریفنگ کے دوران آصف غفور کا کہنا تھا کہ آج آپریشن ردالفساد کو 2 برس ہوگئے ہیں، یہ باقی تمام آپریشن سے مشکل تھا، اس آپریشن میں بلاتفریق دہشت گردوں، سہولت کاروں کا خاتمہ کیا گیا اور کافی بڑی تعداد میں دھماکا خیز مواد برآمد کیا اور ہم امن کی طرف بڑ رہے ہیں۔

اسد درانی کے خلاف تحقیقات پر پینشن اور مراعات ختم

پاک فوج کے ترجمان نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈی جی اسد درانی کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ان کے خلاف ہونے والی تحقیقات فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق تھی۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں اسد درانی فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے، وہ ایک سینئر افسر تھے اور جس طریقے سے انہوں نے کتاب لکھی اس میں طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، جس پر ان کے خلاف ہونی والی تحقیقات کے بعد ان کی پینشن اور مراعات کو روک دیا گیا ہے۔

آصف غفور کا کہنا تھا کہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو فوجی افسروں کو ملنی والی پینشن اور مراعات نہیں ملیں گی جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ہے اور اس فہرست میں ان کا نام برقرار رکھنے کے لیے وزارت داخلہ سے بات کریں گے، تاہم ان کا رینک برقرار رہے گا۔

پاک فوج کے 2 سینئر افسران زیر حراست

ساتھ ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں خبریں آئیں کہ فوج کے 2 سینئر افسران زیر حراست ہیں تو یہ درست ہے، 2 افسران جاسوسی کے الزام میں فوج کی حراست میں ہیں اور آرمی چیف نے ان کا فیلڈ کورٹ مارشل کا حکم دیا ہے جو جاری ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ دونوں الگ کیسز ہیں، ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم نے ان کی نشاندہی کی اور انہیں پکڑا، یہ چیزیں ہوتی ہیں جب کورٹ مارشل ختم ہوگا میڈیا کو اس سے آگاہ کیا جائے گا۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، ہماری بھارت کے ساتھ تنازع کی کوئی خواہش نہیں لیکن اگر کوئی بھی جارحیت کی کوشش کی گئی تو اپنی سرزمین کا دفاع خون کے آخری قطرے تک کریں گے اور قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کلبھوشن یادیو کی رہائی کے مطالبے سے دستبردار

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آپ بھارت کو ایران کے ساتھ نہیں ملا سکتے، بھارت سے ہمارا 70 سال پرانا معاملہ ہے جبکہ ایران دوستانہ اسلامی برادر ملک ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی قوم کو اس طرف لے کر جانا ہے جہاں انہیں تعلیم، روزگار اور ہر سہولت مل سکے۔

پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایران میں ہونے والے واقعے پر پاک ۔ ایران سرحد، وہاں کی قیادت اور سیکیورٹی فورسز سے روابط ہیں اور سرحد کی صورتحال کو مل کر بہتر کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیوں کشمیر کے نوجوان اس نہج پر پہنچ گئے کہ ان کے اندر سے موت کا خوف نکل گیا، گزشتہ 70 سال سے وہ لوگ تشدد کا سامنا کر رہے ہیں اور جب کسی قوم کے نوجوانوں میں سے موت کا خوف نکل جائے تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہوتا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت سے کہا کہ وہ کشمیر میں دیکھے کہ کیا اس مسئلے کا حل طاقت سے ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں بہت زیادہ سیکیورٹی ایجنسیاں موجود ہیں لیکن یہ حملہ ہونا ان ہی کی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔

بھارت میں سرگرمیوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سرحد کی دوسری جانب میڈیا اور ان کے ذمہ دار حکام کی جانب سے جنگ کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے، تاہم بطور ایک خودمختار ریاست پاکستان کے پاس بھی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے اور ملکی دفاع کی تیاری کا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں جانب جو بھی نقل و حرکت ہے وہ معمول کا طریقہ کار ہے، تاہم ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ پاکستان جانتا ہے کہ امن کی قیمت کیا ہے اور اس نے امن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔

انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اپنا دفاع کریں گے اور دشمن کو اس طرح جواب دیں گے جیسا ہماری قوم چاہیے گی۔

خیال رہے کہ پاک فوج کے ترجمان کی پریس بریفنگ ایک ایسے اہم وقت میں کی گئی جب خطے کی موجودہ صورتحال کشیدہ ہے۔

گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، جس میں پلوامہ حملے کے بعد رونما ہونے والی خطے کی صورتحال اور قومی سلامتی امور پر غور کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کے افسر اقوام متحدہ مشن کے فورس کمانڈر مقرر

اس اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی جارحیت کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دینے کے لیے مسلح افواج کو مکمل اختیار دے دیا تھا۔

وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس میں متفقہ طورپر آمادگی کا اظہار کیا گیا تھا کہ ’پاکستان پلوامہ حملے میں کسی بھی سطح پر اور کسی بھی طریقے سے ملوث نہیں‘۔

اجلاس میں کہا گیا تھا کہ ’ پلوامہ حملے کی منصوبہ بندی مقامی طور پر کی گئی تاہم پاکستان حملےکی تحقیقات میں معاونت کی سنجیدہ پیشکش کرچکا ہے‘۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی اور تنازعات کےحل کے لیے بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی۔

اس سے قبل 19 فروری کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی حکومت کو پیش کش کی تھی کہ پلوامہ حملے میں کسی بھی قسم کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں تو پاکستان تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ واقعہ: بھارتی دھمکیوں کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد

وزیر اعظم نے بھارتی حکومت پر واضح کیا تھا کہ یہ نیا پاکستان، نئی ذہنیت اور نئی سوچ ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ کوئی پاکستان سے جاکر باہر دہشت گردی کرے اور نہ باہر سے آکر کوئی پاکستان میں دہشت گردی کرے کیونکہ یہ ہمارے مفاد میں ہے، ہم استحکام چاہتے ہیں۔

انہوں نے بھارتی حکومت کو پیش کش کی پلوامہ حملے میں اگر آپ کے پاس کسی پاکستانی کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی قابل عمل معلومات ہیں تو ہمیں فراہم کریں، ہم کارروائی کریں گے۔

تاہم ساتھ ہی عمران خان نے کہا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچا تو پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ جواب دے گا اور پاکستان کے پاس جواب دینے کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔

یاد رہے کہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں بم دھماکے کے نتیجے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کیے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا جسے اسلام آباد نے مسترد کردیا۔

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کی جانب سے کروایا گیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کا معاملہ، بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر دفتر خارجہ طلب

تاہم بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑدیا تھا اور پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا جبکہ پاکستان سپرلیگ کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

اس کے علاوہ بھارتی درآمدکنندگان نے پاکستانی سیمنٹ کی درآمد روک دی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔

بھارت میں اور مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ پاکستان پر الزام لگانا ایک منٹ کی بات ہے، بھارت اپنا ملبہ پاکستان پر پھینک رہا ہے اور اب دنیا اس سے قائل نہیں ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Malik USA Feb 22, 2019 09:13pm
Excellent press briefing
Aqsa Qamar Feb 23, 2019 12:43pm
Nice Information