ایبٹ آباد: افضل کوہستانی کے قتل کے الزام میں بھتیجا گرفتار

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2019
پولیس کی جانب سے فیض الرحمن کی گرفتاری پر احتجاج ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
پولیس کی جانب سے فیض الرحمن کی گرفتاری پر احتجاج ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

ایبٹ آباد پولیس نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کے قتل کے الزام میں مقتول کے بھتیجے کو گرفتار کر لیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ افضل کوہستانی کے بھتیجے فیض الرحمٰن کے قبضے سے قتل میں استعمال ہونے والی پستول بھی برآمد ہوئی۔

دوسری جانب زیر حراست ملزم کے اہلخانہ نے پولیس کے خلاف فیض الرحمٰن کی گرفتاری پر احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: ایبٹ آباد: کوہستان ویڈیو اسکینڈل کو منظر عام پر لانے والا شخص قتل

خیال رہے کہ افضل کوہستانی کو گزشتہ رات 8 بجکر 10 منٹ پر ابیٹ آباد کے سربان چوک پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

فیض الرحمٰن کے اہلخانہ نے موقف اختیار کیا کہ مقتول افضل کو مسلسل جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، جس کے بعد فیض الرحمٰن بطور گارڈ انہیں تحفظ فراہم کر رہا تھا۔

واضح رہے کہ مقتول کے اہلخانہ اور ان کے قبائلی بزرگوں نے کینٹ پولیس اسٹیشن کے سامنے تقریباً 20 تک دھرنا دیا، جو پولیس سے کامیاب مذاکرات اور بات چیت کے بعد دھرنا ختم ہوا۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ہری پور کے ایس پی انویسٹی گیشن شاہ نذیر کو خصوصی طور پر طلب کیا گیا جنہوں نے احتجاجی مظاہرین میں شامل مقتول کے بھائی بن یاسر اور ان کے وکیل عبدالودود سے مذاکرات کر کے احتجاجی دھرنا ختم کرایا۔

مظاہرین کی جانب سے مقتول کے زیر حراست بھتیجے کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: قتل کے 6 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم

پولیس کی جانب سے جوڈیشل انکوائری اور افضل کوہستانی کے اہلخانہ کے تحفظ کی یقین دہانی پر احتجاجی دھرنا ختم کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس نے افضل کوہستانی کے بھتیجے کا بیان ان کے وکیل کی موجودگی میں ریکارڈ کیا جسے کل عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

تاہم پولیس نے ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے بعد اپنی تحویل میں لے لیا۔

مدعی کا قتل ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے، بلاول بھٹو

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے افضل کوہستانی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اہم ترین کیس کے مدعی کا اس طرح قتل ہونا ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ’نئے پاکستان میں انصاف تو دور کی بات مدعی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان وڈیو اسکینڈل: تحقیقاتی ٹیم کا دوبارہ گاؤں کا دورہ

ان کا کہنا تھا کہ ’انتہائی اہم کیس کے مدعی کا قتل نظامِ انصاف پر عوام کے اعتماد کے لیے زہر سے کم نہیں، یہ قتل خیبرپختونخوا میں امن و امان کے متعلق دعوَوں کے منہ پر بھی تمانچہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’مقتول افضل کوہستانی تحفظ کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن حکمراں بے حِس رہے‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ایسے کونسے اقدامات کیے کہ افضل کوہستانی آسان ہدف بن گیا۔

اس حوالے سے ڈی پی او ایبٹ آباد عباس مجید نے بتایا کہ گولی کے خالی خول اور خون کو فرانزک ٹیسٹ کے لیے پشاور روانہ کردیئے گئے تاہم اہلخانہ کی جانب سے 3 افراد کی نشاندہی کی گئی جن کی گرفتاری کے لیے پولیس ٹیم کوہستان روانہ کی جا چکی ہے۔

کوہستان ویڈیو کیس

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 'پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے'

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

مزید پڑھیں: کوہستان کیس: چار لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

رواں سال 2 جنوری کو کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں رقص کرنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت نے اس وقت تین کمیشن مقرر کیے تھے ان کی کیا رپورٹ تھی، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کمیشن کے سامنے جعلی لڑکیاں پیش کرکے کہا گیا تھا کہ کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو کیس: سپریم کورٹ کا مزید تحقیقات کا حکم

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک کمیشن میں فرزانہ باری کو بھی شامل کیا گیا تھا، ان کی کیا رائے تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کیا تھا اور اب ثابت ہوگیا ہے کہ ان کا اختلاف درست تھا اور لڑکیاں قتل ہوئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کے خلاف 10 روز میں چالان پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ مقتولین کے لواحقین اگر چاہیں تو مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں چلانے کی درخواست ہائی کورٹ میں دے سکتے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں