اراکین یورپی پارلیمنٹ کے دورے پر مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2019
جھڑپوں کے نتیجے میں کسی فرد کے زخمی ہونے سے متعلق کچھ واضح نہیں — فائل فوٹو: اے پی
جھڑپوں کے نتیجے میں کسی فرد کے زخمی ہونے سے متعلق کچھ واضح نہیں — فائل فوٹو: اے پی

یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں موجود سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے وفد کے مقبوضہ کشمیر کے دورے پر کیے گئے مظاہروں پر بھارتی فورسز نے پیلٹ گنز اور آنسو گیس کے شیل فائر کردیے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ سری نگر کے اکثر علاقوں میں کرفیو نافذ ہے جبکہ مقبوضہ وادی میں 40 کے قریب ایسے واقعات کے دوران پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور شاٹ گن سے پیلٹ فائر کیے، تاہم یہ واضح نہیں کہ جھڑپوں کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی ہوا یا نہیں۔

مقبوضہ وادی کے حکام کے مطابق اس سے ایک روز قبل مشتبہ افراد نے ایک ڈرائیور کو قتل کردیا تھا، جو علاقے میں قتل کا چھٹا واقعہ تھا جبکہ ایک دستی بم کے حملے کے نتیجے میں 20 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مکمل بحالی کا مطالبہ

خیال رہے کہ پولینڈ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سمیت یورپی یونین میں سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے 30 قانون سازوں نے 28 اکتوبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔

برطانیہ کے لبرل ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن کرس ڈیوس نے کہا کہ جب انہوں نے اصرار کیا کہ وہ پولیس کے بغیر مقامی افراد سے بات کرنا چاہتے ہیں تو بھارتی حکومت نے اپنا دعوت نامہ واپس لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر پر بھارتی قبضے کے 72 برس مکمل، دنیا بھر میں یوم سیاہ

کرس ڈیوس نے کہا کہ وہ نریندر مودی کی حکومت کے لیے کسی 'پی آر اسٹنٹ' میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کے وفد میں جرمنی پارٹی، فرانس کی نیشنل ریلی، بریگزٹ پارٹی اور پولینڈ کی لا اینڈ جسٹس پارٹی کے قوم پرست، امیگریشن مخالف افراد شامل تھے۔

اس حوالے سے بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ مذکورہ دورے کا مقصد 'اراکین کو جموں، کشمیر اور لداخ میں ثقافتی اور مذہبی رنگوں سے بہترین آگاہی دینا ہے'۔

تاہم بھارت میں موجود یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے زور دیا کہ یہ دورہ سرکاری سطح کا نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم

واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج بھیج کر لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ خطے کی اہم سیاسی شخصیات کو قید کرنے کے بعد 5 اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370 ) کو ختم کرکے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 144 کم عمر لڑکے گرفتار

کشمیری عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں جبکہ پولیس ہتھیاروں کی برآمدگی کا دعویٰ بھی کرتی نظر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'

علاوہ ازیں 70 لاکھ سے زائد کی آبادی پر مشتمل وادی میں ٹیلی فون سروس بحال کردی گئی تھی البتہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے جبکہ بھارت کا اصرار ہے کہ صورتحال ’معمول کے مطابق‘ ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سخت اقدامات کرنے کے 2 ماہ بعد وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی جانیں جاچکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں