مقبوضہ کشمیر میں ریپ کی وکالت کرنے پر سابق بھارتی فوجی افسر کو تنقید کا سامنا

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2019
2 منٹ کی ویڈیو میں پروگرام کے دیگر مہمانوں نے ایس پی سنہا کے ریمارکس پر واک آؤٹ کا اعلان کیا —تصویر:اسکرین گریب
2 منٹ کی ویڈیو میں پروگرام کے دیگر مہمانوں نے ایس پی سنہا کے ریمارکس پر واک آؤٹ کا اعلان کیا —تصویر:اسکرین گریب

صدر مملکت عارف علوی نے سابق بھارتی فوجی افسر کے کشمیری خواتین کے ریپ کی وکالت کرنے والے بیان کو ’ذلت آمیز‘ قرار دے دیا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں صدر مملکت نے بھارتی ٹی وی چینل 'ٹی وی 79' کے ایک شو میں میجر جنرل ریٹائرڈ (ر) ایس پی سنہا کے بیان کی مذمت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’موت کا بدلہ موت، ریپ کا بدلہ ریپ‘۔

عارف علوی نے ان ریمارکس کو ذلت آمیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ لگائیں جہاں اس قسم کے مرد کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ طاقت حاصل ہے۔

صدر مملکت کا یہ ردِ عمل، بھارتی سابق فوجی افسر کے بیان کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد منظر عام پر آیا، جس پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘

بھارتی ویب سائٹ اسکرول ان کی رپورٹ کے مطابق ایس پی سنہا نے ’موت کا بدلہ موت‘ کی بات 1990 میں کشمیری پنڈتوں کی مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے دوران ان کے خلاف مظالم کا بدلہ لینے کے لیے کہی۔

مذکورہ کلپ میں پروگرام میزبان تندو تیز جملوں کے تبادلے کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہوئی دکھائی دیں جس میں پینلسٹ اور حاضرین بھی موجود تھے۔

بعدازاں اس 2 منٹ کی ویڈیو میں پروگرام کے ایک مہمان نے ایس پی سنہا کے ریمارکس پر واک آؤٹ کا اعلان کیا۔

تاہم مذکورہ سابق افسر اپنے ریمارکس پر اڑے رہے جس پر انہیں بھارت میں بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سلسلے میں ایک سماجی رضاکار سکیت گوکھلے نے بتایا کہ انہوں نے بھارتی آرمی چیف اور بھارتی وزارت دفاع کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ایس پی سنہا کے ریمارکس پر فوج اپنی پوزیشن کی ’وضاحت‘ کرے اور ان کا رینک واپس لینے اور پینش روکنے کی کارروائی کی جائے۔

مزید پڑھیں: 'بھارت، مقبوضہ کشمیر میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ انسانی حقوق کو روند رہا ہے'

اس ضمن میں ایک سماجی انٹرپینیور ایلسا میری نے کہا کہ سابق فوجی افسر لائیو ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ریپ کو بھڑکا رہے تھے۔

ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے افراد کو دیکھیں یہ آدمی بھارت کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں جو خاموش تماشائی ہیں‘۔

بھارتی ویب سائٹ فرسٹ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سابق ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل ونود بھاٹیا نے کہا کہ ’بے حس اور بدقسمت، مجھے یقین ہے کہ وہ فرنٹ لائن کے کبھی نزدیک نہیں رہے ہوں گے‘۔

اس حوالے سے سری نگر سے تعلق رکھنے والے بھارتی فوج کے سابق اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل سید عطا حسنین نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’جو سی ٹی آپریشنز میں ہیں وہ جانتے ہیں یہ سب کیا ہے، ان بیانات سے انسانی مصائب کا اندازہ ہوتا ہے‘۔

دوسری جانب وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بھی ان ریمارکس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجی بی جے پی کے کارندے بن چکے ہیں، عالمی برادری بھارتی فوج کے ایسے ذہنی بیماروں اور انسانیت کے مجرموں کے خلاف سخت درعمل کا اظہار کرے۔

خیال رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھارتی فوج پر کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جارہا تھا جس میں جسمانی تشدد، جنسی استحصال اور جبری حراستیں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، واقعات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کا مطالبہ

تاہم بھارتی حکومت ان الزامات کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دے کر مسترد کردیتی ہے۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے 1989 سے بھارتی فوج پر ریپ، بدفعلی، واٹر بورڈنگ، حساس اعضا کو بجلی کے جھٹکے لگانے، جلانے اور سونے نہ دینے جیسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے گزشتہ برس انسانی حقوق کی تنظیموں کے لگائے گئے الزامات کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں