حکومت کے ساتھ چلنا ہے یا نہیں، پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا، اخترمینگل

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2019
اخترمینگل نے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا—فوٹو:ڈان نیوز
اخترمینگل نے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ اتحاد پر فیصلے کے لیے پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘نیوز وائز’ میں انٹرویو کے دوران اختر مینگل نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے حوالے سے اہم فیصلوں میں اتحاد کے طور پر اعتماد میں نہیں لیتی۔

سربراہ بی این پی مینگل نے بلوچستان میں خواتین سے اسلحہ برآمد کرنے کے حوالے سے پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا کہ ‘یہ واقعہ 29 نومبر کو ضلع آواران میں پیش آیا جہاں رات کو تقریباً 5 سے 6 گاڑیایوں میں مقامی لیویز، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افراد تھے جنہوں نے ایک گاؤں میں کارروائی کی اور دو خواتین کو اٹھایا، اس کے بعد دوسرے گاؤں سے ایک خاتون کو اٹھایا اور پھر تیسرے گاؤں سے ایک اور خاتون کو اٹھایا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایک دن تک بالکل خاموشی تھی جب مقامی افراد نے وہاں احتجاج کیا تو یہ معاملہ سوشل میڈیا پر آیا پھر سرعام لیویز کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کے سامنے اسلحہ رکھا گیا جس پر بلوچستان میں سیاسی جماعتوں اور ہم نے احتجاج کیا’۔

مزید پڑھیں:اختر مینگل کی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی

ان کا کہنا تھا کہ ‘پارلیمنٹ میں اس پر احتجاج کیا اور اسپیکر کے سامنے دھرنا دیا اور احتجاج میں اپوزیشن کی جماعتوں نے ہمارا ساتھ دیا، اس وقت اسپیکر نے یقین دلایا اور حکم دیا تھا کہ وزیر داخلہ اس کا جواب دیں’۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘آج وزیرداخلہ سے ملاقات ہوئی جس میں ڈپٹی اسپیکر بھی موجود تھے اور اس بات کی ہمیں تسلی دی تھی کہ آئندہ چند ایک روز میں ان خواتین کو رہا کیا جائے گا’۔

'معاہدے میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ'

حکومت اتحاد میں شمولیت کے لیے ہوئے معاہدے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے جو 6 نکات دیے تھے اس کے علاوہ 9 نکات تھے، اس میں سیاسی معاملات بھی تھے اور بلوچستان کی ترقی کے معاملات بھی تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور ہم چاہتے تھے کہ سیاسی مذاکرات سے یہ حل ہو کیونکہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ نہ ہی دہشت گرد کی بندوق سے حل ہوگا اور نہ ہی سرکار کی توپ سے حل ہوگا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے جو نکات دیے تھے ان میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا کہ اگر وہ زندہ ہیں تو ان کو بازیاب کروایا جائے، اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں اور آپ کے پاس ثبوت ہیں تو عدالتیں آپ کی ہیں وہاں پیش کریں’۔

حکومت سے ہونے والے معاہدے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے شامل باتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اگر وہ زندہ نہیں ہیں تو کم از کم ان کے رشتہ داروں کو مطلع کیا جائے تاکہ وہ تسلی کرکے بیٹھ جائیں اور اگر بے گناہ ہیں تو انہیں رہا کیا جائے’۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘یہ معاہدہ اگست 2018 میں ہوا تھا جس کے بعد خاموشی ہوئی اور کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن جون میں بجٹ آیا تو ان کو ووٹ کی ضرورت پڑی تو پھر ہم سے انہوں نے رابطہ کیا اور ہم نے انہیں واضح کیا کہ یہ مسئلہ سرفہرست ہے اور اس کو حل کریں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ سلسلہ پہلے بھی شروع ہوا تھا اس دوران ساڑھے چار سو لوگ رہا ہوئے تھے لیکن بجٹ سیشن کے دو مہینے کے بعد یہ سلسلہ پھر بند ہوا، یہ سلسلہ نہ صرف بند ہوا بلکہ اور لوگوں کو بھی اٹھایا گیا’۔

یہ بھی پڑھیں:اخترمینگل کا اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

حکومتی اتحادی رہنما نے کہا کہ ‘ہم ہر وقت تحریک انصاف کی قیادت کو یاد دہانی کرانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے کو حل کریں جس سے بلوچستان کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں، کل ان کو پھر یاد دلانے کے لیے اسمبلی اجلاس میں تقریر کی کیونکہ یہاں حکمرانی کرتے ہوئے اکثر یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شاید وہ ابھی تک بلوچستان کی ڈائنامکس کو نہیں سمجھ پائے، خواتین کے معاملات کو وہاں بہت حساس لیا جاتا ہے’۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘بلوچستان میں دو مرتبہ شورش ہوئی ہے تو دونوں کے پیچھے واقعات خواتین کے ہیں، 1960 میں ایوب خان کے دور میں جو ہوا تھا اس کے پیچھے بھی ایک ایسا واقعہ تھا، 2006 میں ڈاکٹر شازیہ کا جو مسئلہ ہوا تھا وہ آج تک حل نہیں ہوا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کہیں ایسا تو نہیں کہ بلوچستان کو چھٹی مرتبہ شورش کی طرف دھکیلا جارہا ہے’۔

'کیا سینیٹ کے پاس اختیارات ہیں'

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘یہ صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاں پر جو سیاسی حکومت یا غیر سیاسی حکومت آئی اس نے بلوچستان کو اہمیت نہیں دی، شاید بلوچستان کی پارلیمنٹ میں اتنی حیثیت نہیں ہے کہ اس کو وہ اہمیت دی جائے اور اگر تعداد میں اتنی حیثیت ہوتی تو شاید بلوچستان میں پانچواں ملٹری آپریشن نہ کیا جاتا، نہ ہی بلوچستان کو اس طرح نظر انداز کیا جاتا اور نہ ہی بلوچستان اس طرح پسماندہ ہوتا’۔

پارلیمنٹ میں صورت حال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘بحث تو ہم کہیں بھی بیٹھ کر سکتے ہیں لیکن سینیٹ کے پاس کیا وہ اختیارات ہے کہ وہ حکومت کو تبدیل بھی کرسکے یا سینیٹ کے پاس وہ اختیارات ہیں، سینیٹ کے پاس ابھی تو مالی اختیارات بھی نہیں ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘سینیٹ میں تعداد کے حوالے سے تو برابر ہیں لیکن اس کے اختیارات تو محدود ہیں’۔

پروگرام کی میزبان کی جانب سے مسئلے کے حل سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘حکمرانوں کو بلوچستان کے حوالے سے نیت صاف رکھنا ہوگی، صرف وعدہ اور یقین دہانی سے بلوچستان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے’۔

ترقیاتی کاموں کے حوالے سے معاہدے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘بلوچستان میں ڈیم، روڑ، انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، پورے پاکستان میں جو گیس سوئی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ابھی تک ڈیرہ بگٹی کے کئی علاقوں میں نہیں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان علاقوں میں گیس فراہم کی جائے، جہاں بجلی نہیں ہے وہاں بجلی یا سولر توانائی سے بجلی فراہم کریں یہ وعدے بھول گئے تھے تاہم بجٹ کے موقع پر ہم نے ایس ڈی پی میں بلوچستان کے لیے یہ اسکیمیں شامل کروائیں’۔

’سی پیک کے حوالے سے وعدوں پر پیش رفت نہیں’

پاک-چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے تحریک انصاف کے تعاون اور رویے سے متعلق سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ ‘تعاون نہیں ہور ہا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک معاہدہ سی پیک کے حوالے سے بالخصوص گوادر کا تھا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے خدشات تھے گوادر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں آئیں گی جس کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی لیکن ہر اجلاس میں ان یقین دہانیوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی’۔

اختر مینگل نے کہا کہ سی پیک کے ‘مشرقی روٹ کا دو مرتبہ افتتاح ہوچکا ہے، پہلے وزیر اعظم اور موجودہ وزیراعظم کی تختی لگی ہوئی ہے، اگر تختیوں کو لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں تو پھر بلوچستان کے ہر گاؤں میں ان کو تختی لگانی چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بحیثیت اتحادی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اہم فیصلہ سازی میں وہاں سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت کو اعتماد میں لینا چاہیے بالخصوص گوادر کے حوالے سے، ابھی گوادر میں ہزاروں سال سے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت روزگار حاصل کرتے تھے اب وہ ایک وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں’۔

سی پیک اتھارٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘اسی پر تو ہمارا اعتراض ہے کہ اتھارٹی بنائی گئی، اتحادی کے طور پر کم ازکم ہمیں اعتماد میں لیا جاتا، نکات نہیں تو زبر زیر لگانے کا ہمارا حق ہوتا ہے’۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘کسی فورم میں ان سے ملاقات ہوتی تو وہ کہتے ہیں اگلی ملاقات تک ختم ہوجائے گا لیکن اگلی ملاقات میں ہماری طرف سے اس سے بڑی شکایات آتی ہیں’۔

'آرمی چیف کی توسیع پر وزیراعظم نے اپنی پارٹی سے بھی نہیں پوچھا ہوگا'

آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے قانون سازی کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ معاملے حکومت یا اپوزیشن ہمارے سامنے لائے گی تو اپنی پارٹی میں اس حوالے سے بات کریں گے۔

وزیراعظم کے اس بیان کے حوالے سے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت سنبھالنے کے 3 ماہ بعد آرمی چیف کو توسعی دینے کا فیصلہ کیا تھا تو کیا حکومت اتحادی کے طور پر آپ سے مشور لیا تو اخترمینگل نے کہا کہ ‘ہم تو اس کے اتحادی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا ہوگا’۔

‘حکومت سے اتحاد کے حوالے سے پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا’

انہوں نے کہا کہ ‘اس حکومت کے ساتھ ہمیں چلنا ہے یا نہیں اس حوالے سے آئندہ چند روز میں ہم نے پارٹی کی سینٹر ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے، پچھلی ملاقات میں ہمارے دوست حکومت کے رویے سے خوش نہیں تھے اور وہی بات پارٹی میں لے کر جائیں گے’۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘ملاقات میں حتمی طے کیا جائے گا کہ ہم اس حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ حکومت تو قائم ہیں ہم 4 ووٹوں سے گرا نہیں سکتے’۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت کو ہمارے ووٹوں کی ضرورت پڑے گی تو پھر دیکھیں گے کہ ہم ان کے کشکول میں کچھ ڈال سکتے ہیں یا نہیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ ‘حکومت کو ہماری ضرورت پڑی اور ہمارے پاس آئے تو پھر ہم پوری الف لیلیٰ داستان سامنے رکھیں گے کہ اس داستان سے ہمیں کیا حاصل ہوا ہے’۔

وزیرداخلہ کی یقین دہانی

قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری سے سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں بی این پی مینگل کے وفد نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور آواران میں گرفتار خواتین کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی جہاں وفاقی وزیر داخلہ (ر) بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور دیگر بھی موجود تھے۔

وزیرداخلہ معاملے کے حل کی یقین دہائی کرائی — فوٹو: وزارت داخلہ
وزیرداخلہ معاملے کے حل کی یقین دہائی کرائی — فوٹو: وزارت داخلہ

ملاقات کے دوران وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بلوچستان کی ثقافت اور روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملاقات کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم قبائلی روایات اور بلوچستان کے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور اس ملاقات کا مقصد ہی مسئلے کا مثبت حل نکالنا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے شرکا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ان کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور وہاں کے لوگ میرے دل کے بہت قریب ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مکمل رابطے میں ہیں اور پوری طرح سے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں۔

ملاقات کے بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے کہا کہ بلوچستان ہمارا گھر اور صوبہ ہے اور ہمارے ہاں کسی بھی معاملے میں چاہے وہ گھریلو جھگڑا ہو یا قبائلی رنجشیں، ہر معاملے میں خواتین کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آواران میں خواتین کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں