امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد بغداد کے گرین زون میں بھی راکٹ حملہ

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
گرین زون میں اہم سفارتخانے موجود ہیں—فائل فوٹو: اے پی
گرین زون میں اہم سفارتخانے موجود ہیں—فائل فوٹو: اے پی

ایران کے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کے تقریباً 24 گھنٹوں کے بعد بغداد کے انتہائی حساس علاقے گرین زون میں 2 راکٹ آکر گرے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

برطانوی خبررساں اداے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عراقی فوج نے کہا کہ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ادھر پولیس ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ گرین زون کے اندر سائرن بجنا شروع ہوگئے تھے جبکہ ایک راکٹ امریکی سفارتخانے سے 100 میٹرز (یارڈ) کے فاصلے پر گرا۔

عراقی فوج کا کہنا تھا کہ '2 کٹیوشا راکٹس گرین زون کے اندر گرے (لیکن) کوئی جانی نقصان نہیں ہوا'۔

اس حملے کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ بغداد میں سائرن کے بعد 2 بڑے دھماکوں کی آواز سنی گئی۔

دوسری جانب فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی ذرائع بتایا کہ بدھ کو رات دیر گئے 2 راکٹ گرین زون میں آگرے، جہاں امریکی مشن سمیت غیر ملکی سفارتخانے موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آدھی رات سے کچھ لمحے قبل خبر رساں ادارے کے نمائندے نے بغداد میں 2 بڑے دھماکوں کی آواز سنی جس کے بعد گرین زون میں سیکیورٹی سائرن کی آواز آنے لگی۔

ابتدائی طور پر کسی کی جانب سے ان راکٹ فائر کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ یہ حملہ تہران کی جانب سے عراق میں امریکی اور دیگر اتحادی فورسز کے زیر اثر اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملوں کے تقریباً 24 گھنٹے بعد سامنے آئے۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے

ایران کی جانب سے گزشتہ روز کیے گئے حملے اس امریکی فضائی کارروائی کا جواب تھے جس میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس ہلاک ہوئے تھے۔

ابومہدی المہندس عراقی ریاست میں موجود مسلح گروپس میں سے ایک الحشد الشعبی کے ڈپٹی سربراہ تھے جبکہ مذکورہ گروپ کے تہران کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ امریکا نے الحشد الشعبی پر بغداد میں امریکی سفارتخانے اور ملک بھر میں امریکی فوجیوں کے زیراثر اڈوں پر راکٹ حملے کرنے کا الزام لگایا تھا۔

علاوہ ازیں بدھ کو الحشد الشعبی نے کہا تھا کہ وہ امریکی حملے کا بدلہ لیں گے۔

اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ 'دہشت گرد' قرار دیے گئے پیراملٹری چیف قیص الغزالی نے کہا تھا کہ امریکا کو عراق کا جواب 'ایران کے ردعمل سے کم نہیں ہوگا'۔

ایران کا جوابی وار

واضح رہے کہ ایران نے گزشتہ روز مقامی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے عراق میں ایربل اور عین الاسد کے مقام پر 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا تھا، جہاں امریکی، اتحادی افواج کے اہلکار موجود تھے جبکہ مذکورہ حملے میں ایران نے اپنی سرزمین سے ایک درجن سے زائد میزائل فائر کیے گئے تھے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا تھا کہ میزائل حملے میں ’80 امریکی دہشت گرد‘ ہلاک ہوئے اور کوئی میزائل روکا نہیں جاسکا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ

سرکاری ٹی وی نے پاسداران انقلاب کے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ اگر امریکا نے جوابی کارروائی کی تو ایران کی نظر خطے میں موجود 100 اہداف پر ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹرز اور فوجی سازو سامان کو بھی ’سخت نقصان‘ پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکی حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف ایران کا ردِعمل امریکا کے منہ پر تھپڑ ہے۔

امریکا کا ردعمل

ایران کے حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'آل از ویل' یعنی سب ٹھیک ہے اور کسی امریکی کو نقصان نہیں پہنچا۔

بعد ازان رات میں امریکی قوم سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حکومت پر فوری طور پر اضافی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'عراق میں امریکی اڈوں پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کوئی امریکی اور عراقی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'پیشگی وارننگ سسٹم نے بہترین کام کیا، امریکی افواج کسی بھی قسم کے حالات کے لیے تیار ہیں اور ایران پستی کی جانب جا رہا ہے جو تمام متعلقہ فریقین اور دنیا کے لیے خوشی کی بات ہے'۔

ایران-امریکا حالیہ کشیدگی

واضح رہے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔

جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کا ایران پر فوری طور پر اضافی پابندیاں لگانے کا اعلان

مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ

قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں