عزیر بلوچ، نثار مورائی، سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2020
تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے 2017 میں جے آئی ٹی رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست دی تھی — فائل فوٹو:ڈان نیوز
تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے 2017 میں جے آئی ٹی رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست دی تھی — فائل فوٹو:ڈان نیوز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کی سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری کے گینگسٹر عزیر جان بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 3 رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جے آئی ٹی رپورٹس میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے اس کے منظر عام پر لانے سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو۔

تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی نے ہائی کورٹ میں 2017 میں ان جے آئی ٹی رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست دی تھی اور کہا تھا کہ ان رپورٹس میں سیاست دانوں کے قتل اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے انکشافات ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: سانحہ بلدیہ، عزیر بلوچ، نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

ان کا کہنا تھا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری گینگ کے سربراہ عزیر بلوچ کے مبینہ جرائم اور سابق ایف سی ایس چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کے لیے متعلقہ اداروں سے رابطے کیے گئے تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جسٹس شمس الدین عباسی کی جانب سے لکھے گئے ہائی کورٹ بینچ کے فیصلے میں کہا گیا کہ 'کیا ایک مہذب معاشرے میں بلدیہ فائر فیکٹری کیس جیسا لرزہ خیز واقعہ، جس کے نتیجے میں 259 افراد جاں بحق ہوئے، اسے برداشت کیا جاسکتا ہے، کیا اس معاملے میں جے آئی ٹی کے ذریعے کی جانے والی تحقیقات کا نتیجہ جاننے سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو محروم رکھنا جائز ہوگا یا نہیں؟ جبکہ اسی طرح عزیر بلوچ اور نثار مورائی کے حوالے سے بھی 2 واقعات ہیں'۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'یہاں کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ یہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کو وقت پر جان سکے'۔

بینچ نے فیصلہ دیا کہ 'اگر اس طرح کے وحشیانہ واقعات پیش آتے ہیں اور عوام واقعات پر کی جانے والی جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتائج تک رسائی سے محروم ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جمہوری حکومت اس میں ملوث لوگوں کے بارے میں لوگوں کو سچائی بتانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، جس کی وجہ سے پورا نظام کمزور ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 6 سال گزر گئے، کیس تاحال التوا کا شکار

درخواست منظور کرتے ہوئے بینچ نے مزید کہا کہ آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، ہائی کورٹ پابند ہے کہ عوام کو نہ صرف تحفظ فراہم کرے بلکہ لوگوں کے بنیادی حقوق کو نافذ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی کے نتائج میں غلط کام کرنے والوں کے بارے میں جاننے کا حق نہ صرف ان خاندانوں جو ان واقعات سے متاثر ہوئے بلکہ ہر عام کو بھی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں