یمن سے سعودی عرب کے سرحدی شہروں پر میزائل حملے

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2020
ریاض میں حملے کے دوران متعدد دھماکے سنے گئے - فائل فوٹو: اے ایف پی
ریاض میں حملے کے دوران متعدد دھماکے سنے گئے - فائل فوٹو: اے ایف پی

سعودی ایئر ڈیفنس نے ریاض اور یمن سرحد سے قریب شہر پر داغے گئے ببیلسٹک میزائل حملے کو روکنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اس کے نتیجے میں کم از کم دو شہری زخمی بھی ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دارالحکومت ریاض میں اس وقت کرفیو جیسا لاک ڈاؤن ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ریاض پر اس حملے کے دوران متعدد دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں جس کے بارے میں سعودی فوجی اتحاد نے یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر الزام عائد کیا جو اس سے قبل بھی سعودی شہروں پر میزائل، راکٹ اور ڈرونز سے حملے کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: یمن کے مستقبل میں حوثی باغیوں کا کردار ہوگا، متحدہ عرب امارات

تاہم یہاں یہ واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں سعودی تیل تنصیبات پر دو حملوں کے بعد حوثی باغیوں کی جانب سے حملے روکنے کی پیشکش کے بعد یہ پہلا بڑا حملہ تھا۔

دوسری جانب سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے باغیوں سے لڑنے والے سعودی اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ریاض اور جزان شہروں کی جانب دو بیلسٹک میزائل داغے گئے‘۔

ایس پی اے کی جانب سے ایک علیحدہ رپورٹ کے مطابق سول ڈیفنس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی رکاوٹ سے شہروں کے نزدیک رہائشی علاقوں میں میزائل کی باقیات گریں۔

تاہم باغیوں کی جانب سے اس معاملے پر فوری رائے سامنے نہیں آئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کرفیو کے 15 گھنٹوں بعد سعودی دارالحکومت میں تقریباً 3 دھماکوں کی آواز سنی گئی۔

یہ حملہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب رواں ہفتے ہی جمعرات کو یمن میں جنگ لڑنے والوں کی جانب سے اقوام متحدہ کی کورونا وائرس سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جنگ بندی کی کال کی حمایت کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں سعودی عرب، یمنی حکومت اور باغیوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے متنازع علاقوں میں عوام کی مدد کے لیے ’فوری عالمی جنگ بندی‘ کی اپیل کا خیر مقدم کیا تھا۔

ان کا یہ مطالبہ سعودی عرب کی فوج کی یمن میں خانہ جنگی میں مداخلت کے 5سال مکمل ہونے کے روز ہی سامنے آیا تھا۔

کشیدگی میں اضافہ

دوسری جانب یمن میں ٹوٹے پھوٹے صحت کے نظام میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تاہم فلاحی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جب یہ متاثر کرے گا تو اس کا نتیجہ تباہ کن ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: حوثی باغیوں کا سعودی ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ

ملک کو اس وقت پہلے ہی سے انسانی بحران کا سامنا ہے جبکہ سعودی عرب بھی اپنے ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں کر رہا ہے۔

سعودی ریاست کی وزارت صحت نے اب تک ایک ہزار 203 کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ کیے ہیں جبکہ 4 ہلاکتیں بھی سامنے آئی ہیں۔

حوثی باغیوں اور ریاض کی پشت پناہی میں یمنی فوج کے درمیان کشیدگی میں شمالی ضلع الجوف اور معرب میں اضافہ دیکھا گیا۔

خیال رہے کہ دونوں جانب سے کشیدگی میں کمی میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا تھا جبکہ سعودی حکام نے نومبر کے مہینے میں کہا تھا کہ ریاض نے باغیوں کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے راستے کھلے رکھے ہیں۔

باغیوں نے بھی ستمبر کے مہینے میں تیل تنصیبات پر حملے کے بعد تمام میزائل اور ڈرون حملے روکنے کی پیشکش کی تھی۔

تاہم لگتا ہے ان کوششوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

2015 میں جب ریاض نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی نئی خارجہ پالیسی کے تحت اربوں ڈالر سے یمن میں مداخلت کی قیادت کی تھی تو اسے فوری فتح اور باغیوں کو نکالنے کی امید تھی۔

تاہم اس مہنگی ترین مداخلت باغیوں کو ان کے گڑھ، شمالی علاقوں سے نکالنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے عرب دنیا کے غریب ترین ملک میں انسانی بحران پیدا ہوگیا۔

تبصرے (0) بند ہیں