بھارت: انسداد دہشت گردی قانون کے تحت گرفتار حاملہ اسکالر جیل منتقل

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2020
خاتون کو دہلی کی تہار جیل منتقل کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
خاتون کو دہلی کی تہار جیل منتقل کیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

بھارت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) کی ایک ریسرچ اسکالر کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک ریسرچ اسکالر صفورا زرگر نے رمضان المبارک کا پہلا روز سخت سیکیورٹی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی تہار جیل میں گزارا۔

واضح رہے کہ دہلی پولیس نے 27 سالہ حاملہ خاتون کو 10 اپریل کو گرفتار کیا تھا اور ان پر انسداد دہشت گردی کے سخت قانون 'غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 2019' کے تحت چارج کیا گیا۔

صفورا زرگر جامعیہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) سے تعلق رکھتی ہیں جس نے گزشتہ سال دسمبر میں متنازع شہریت قانون کے خلاف نئی دہلی میں کئی ہفتوں تک پرامن احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا'

ادھر حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) ملک کے کروڑ مسلم اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ہے اور یہ ملک کے سیکولر آئین کے خلاف ہے۔

ادھر پولیس کی جانب سے صفورا زرگر پر فروری میں ہونے والے فسادات کا اہم 'سازشی' ہونے کا الزم لگایا ہے۔

یاد رہے کہ فروری میں پرامن دھرنے پر حکومت کے ہندو قوم پرستوں کے حملہ کردیا تھا جس کے بعد دہلی کے شمال مشرقی حصے میں فسادات نے جنم لیا تھا جس میں 53 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

مزید برآں ایک آرٹ طالبعلم کوثر جان کا گرفتار اسکالر کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ جے سی سی میں خواتین کی ایک مضبوط آواز تھی لیکن اب وہ یہاں نہیں ہے۔

اس صورتحال پر الجزیرہ سے صفورا زرگر کی ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو میں انہیں 'بے باک بولنے والی اور محنتی' قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ عدلیہ ان کے تعلیمی ریکارڈ اور طبی حالت کو دیکھتے ہوئے جلد انہیں رہا کردے گی۔

اس حوالے سے ایک جی سی سی کے رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران گرفتاریاں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سی اے اے کے خلاف تحریک آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے۔

خیال رہے کہ 10 فروری کو صفورا زرگر پولیس اور طلبہ کے درمیان تصادم کے نتیجے میں بیہوش ہوگئی تھیں جس کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس بارے میں ان کے شوہر نے بتایا کہ اس کے بعد سے حمل کے ایام جیسے بڑھ رہے تھے انہوں نے اپنی نقل و حرکت کو محدود کردیا تھا جبکہ کورونا وائرس کے بعد سے انہوں نے ضرورت کے کام کے علاوہ گھر سے باہر نکلنا بھی بند کردیا تھا اور وہ زیادہ تر گھر سے کام کرتی تھیں۔

یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ تہار جیل نئی دہلی میں بھات کی سب سے زیادہ گنجان جیل ہے جہاں قیدیوں کی تعداد تقریباً گنجائش سے دوگنی ہے۔

اگرچہ کووڈ 19 کے باعث بھارتی عدالتیں ان لوگوں کی رہائی کے احکامات دے رہی ہیں جن کا ٹرائل نہیں ہوا لیکن صفورا زرگر کے اوپر ہنگامہ آرائی، اسلحہ رکھنے، اقدام قتل، فساد کے لیے اکسانے، بغاوت، قتل اور مذہب کی بنیاد پر دو گروپس کے درمیان دشمنی کروانے سمیت 18 الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کا جلد رہا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔

ان کی وکیل جنہوں نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کی ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں ہمیں جعفرآباد کیس میں ضمانت ملی تھی، جس میں صفورا زرگز پر خواتین اور بچوں کے احتجاج کی قیادت کرنے اور ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عام آدمی پارٹی کے مسلمان رکن کےخلاف انٹیلی جنس افسر کے قتل کا الزام

انہوں نے کہا کہ انہیں رہا کیا جاسکتا تھا لیکن پولیس نے انہیں دوسرے کیس میں گرفتار کرلیا تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ اصل میں ان کے اوپر کیا الزامات ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ 'مبہم الزامات کی بنیاد پر دوران حمل انہیں جیل میں ڈالنا انصاف کا اسقاط حمل ہے'۔

علاوہ ازیں الجزیرہ نے دہلی پولیس کے گزشتہ ہفتے جاری بیان کے حوالے سے بتایا کہ 20 اپریل کو پولیس نے ٹوئٹ کی تھی کہ دہلی فسادات سے متعلق تمام گرفتاریاں قانون اور سائنسی ثبوتوں کی بنیاد پر کی گئیں۔

ساتھ ہی پولیس نے خبردار کیا تھا کہ وہ جھوٹے پروپیگینڈوں اور افواہوں کو برداشت نہیں کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں