نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف دنیا میں سب سے جلد تیار کی جانے والی ویکسین کارآمد ہوگی یا نہیں، فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں ہوجائے گا۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس ویکسین کا ٹرائل انسانوں پر گزشتہ ہفتے شروع کیا تھا اور اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 6 ہفتوں میں معلوم ہوجائے گا کہ یہ دوا کارآمد ہوگی یا نہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر جان بیل نے بتایا 'متعدد برطانوی شہریوں کو اب یہ تجرباتی ویکسین اس توقع کے ساتھ دی جارہی ہے کہ یہ کارآمد ہوگی، جس کا تعین جون کے وسط میں ہوگا'۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان اس ویکسین پر اس توقع کے ساتھ کام کرہے ہیں کہ وہ ستمبر تک اس کے 10 لاکھ ڈوز استعمال کے لیے فراہم کردیں گے۔

اس مقصد کے لیے جمعرات کو برطانوی حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور اآسترا زینیکا کے ساتھ نئی شراکت داری کااعلان کیا جس کا مقصد ویکسین کی کامیابی پر اسے فوری طور پر متعارف کرانا ہے۔

پروفیسر جان بیل نے کہا کہ تحقیقی ٹیم نے اب تک زبردست کام کیا ہے۔

انہوں نے بتایا 'اب تک سیکڑوں افراد کو ویکسین دی جاچکی ہے اور ہمیں توقع ہے کہ جون کے وسط تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ کام کرے گی یا نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ نئی شراکت داری سے یہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ اگر یہ ویکسین کارآمد ہوئی تو اسے فوری طور پر متعارف کرایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا 'ایک بار ہمیں ریگولیٹرز سے اجازت مل جائے گی تو ہم دوبارہ آغاز میں جا کر یہ تجزیہ نہیں کرنا چاہتے کہ بڑے پیمانے پر اس کی تیاری کیسے کی جائے'۔

انہوں نے مزید کہا 'ہم اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں یہ ویکسین دستیاب ہو، تاکہ ترقی پذیر ممالک میں لوگ اسے حاصل کرسککیں گے، جہاں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی، اس مقصد کے لیے ہمیں ایک شراکت دار کی ضرورت تھی جو اتنا بڑا کام کرسکے، کیونکہ برطانیہ کی صلاحیت اتنی زیادہ نہیں، تو ہم آسترا زینکا کے ساتھ مل کر کام کرکے اس صلاحیت کو بہتر بنائیں گے'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا برطانوی شہریوں کو ویکسین کامیاب ہونے پر اولین ترجیح دی جائے گی تو ان کا کہنا تھا کہ خطرے کی زد میں آنے والے 3 کروڑ کے قریب افراد کو پہلے مرحلے میں ویکسین دی جائے گی مگر آکسفورڈ کی جانب سے بیرون ملک شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دنیا بھر میں یہ فوری طور پر دستیاب ہو۔

ان کا کہنا تھا 'ہم اس حوالے سے بہت محتاط ہیں کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ویکسین کی عدم دستیابی نہ ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ فارماسیوٹیکل کمپنی نے اپنی پیشکش میں بڑے دل کا مظاہر کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین کی دستیابی اور تقسیم کم لاگت میں ہو۔

آسترا زینیکا کے چیف ایگزیکٹیو پاسکل سوریوٹ کا کہنا تھا کہ کمپنی وبا کے دوران لاگت میں ہی ویکسین کو سپلائی کرے گی اور توقع ہے کہ ضرورت کے وقت متعدد ممالک میں متعدد ویکسینز دستیاب ہوں گی۔

انہوں نے کہا 'جون یا جولائی میں ہمیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ یہ ویکسین کس حد تک افادیت رکھتی ہے'۔

اس سے قبل رواں ہفتے اس ویکسین کی بندروں کی آزمائش کے نتائج سامنے آئے تھے جن میں بتایا گیا کہ ان جانوروں میں 28 دن میں کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگیا حالانکہ انہیں بہت زیادہ مقدار میں جراثیم سے متاثر کیا گیا تھا۔

بندروں پر تجربات مارچ کے آخر میں امریکا کے سائنسدانوں نے روکی ماؤنٹین لیبارٹری میں کیے گئے تھے۔

اس مقصد کے لیے 6 بندروں کو جینز انسٹیٹوٹ اور آکسفورڈ ویکسین گروپ کی تیار کردہ ویکسین دی گئی اور اس کے بعد اننہیں بہت زیادہ تعداد میں کورونا وائرس کی زد میں لایا گیا، جو دیگر بندروں کو اس سے پہلے بیمار کرچکی تھی۔

تحقیق میں شامل بندروں میں بیماری کا کوئی اثر نظر نہیں آیا اور 28 دن بعد بھی وہ صحت مند تھے۔

راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے وائرس ایکولوجی یونٹ کے سربراہ ونسینٹ میونسٹر نے بتایا 'بندروں کی یہ نسل جینیاتی لحاظ سے انسانوں کے بہت قریب ہوتی ہے'۔

انسانوں پر اس کی آزمائش 23 اپریل کو شروع ہوئی تھی اور اس کا اختتام ستمبر تک ہونے کا امکان ہے۔

ابتدائی مرحلے کے لیے 500 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔

500 رضاکاروں پر ٹرائل اگلے ماہ تک وسط تک جاری رہے گا جس میں مجموعی طور پر 510 رضاکاروں کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان مین سے ایک گروپ کو پہلی بار ویکسین کے استعمال کے بعد فالو اپ بوسٹر ڈوز بھی دیا جائے گا۔

محقق پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے جس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، وہ پہلے ہی 10 مختلف اقسام کے طریقہ علاج کے لیے استعمال ہورہی ہے، مگر کورونا وائرس کے حوالے سے مختلف ممالک کے مختلف ٹیسٹ گروپس کی ضرورت ہے تاکہ درست نتائج کو یقنی بنایا جاسکے، کیونکہ یہ انفیکشن بہت تیزی سے دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہا ہے۔

تحقیقی ٹیم بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری کے لیے اضافی فنڈنگ کی کوشش بھی کررہی ہے کیونکہ وہ 6 ماہ کے انسانی ٹرائل کے بعد وہ اس کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن چاہتی ہے۔

اس کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ یہ ویکسین انسانوں کے لیے موثر ثابت ہوگئی اور خزاں میں اس کی پروڈکشن شروع ہوجائے گی، جس دوران 5 ہزار افراد پر آخری ٹرائل بھی مکمل کیا جائے گا اور طبی ورکرز ستمبر تک اس کا استعمال شروع کیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت آکسفورڈ یونیورسٹی ستمبر تک اس ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اتنی کم مدت میں ویکسین کی تیاری بظاہر ناممکن لگتی ہے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم درحقیقت کورونا وائرس جیسی وبا کے لیے پہلے سے تیاری کررہی تھی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے جینیاتی تدوین شدہ چیمپئنزی وائرس کو تیار کیا ہوا تھا جو اس نئے وائرس کی بنیاد ہے۔

انہیں توقع ہے کہ وہ ایسا محفوظ وائرس اس ویکسین کا حصہ بناسکیں گے جو کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی نظام کو لڑنے کی تربیت دے سکے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین ان چند ٹرائلز میں سے ایک ہے جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

چین میں 3 مختلف ویکسینز کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے جن میں سے ایک ویکسین تو دوسرے مرحلے میں بھی داخل ہوچکی ہے۔

اسی طرح امریکا میں مارچ میں موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی تھی جبکہ ایک اور کمپنی انوویو کی ویکسین کا ٹرائل رواں ماہ کے شروع میں شروع ہوا۔

اسی طرح جرمنی میں بھی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق جرمنی کی کمپنی بائیو ٹیک اور ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی Pfizer کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی رواں ہفتے انسانوں پر آزمائش شروع کردی گئی اور 30 اپریل تک مذکورہ ویکسین کے ڈوز 12 رضاکاروں کو دیے جا چکے تھے۔

مذکورہ ویکسین کو بی این ٹی 162 کا نام دیا گیا ہے اور اسے مجموعی طور پر 200 رضاکاروں پر آزمایا جائے گا جن کی عمریں 18 سے 55 سال تک ہوں گی۔

تاہم ان ویکسینز کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی تیاری اور عام استعمال کی اجازت میں ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، تاہم چینی سائنسدان پرامید ہیں کہ ستمبر تک ویکسین طبی عملے کے لیے دستیاب ہوگی جبکہ عام افراد اسے اگلے سال کے شروع میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے استعمال کرسکیں گے۔

اس کے مقابلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے رواں مہینے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینولوجی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے دی ٹائمز آف لندن کو بتایا کہ وہ '80 فیصد پراعتماد' ہیں کہ ان کی ٹیم کی تیار کردہ ویکسین کام کرے گی اور ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا 'کوئی یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ یہ ویکسین کام کرے گی، مگر مجھے 80 فیصد اعتماد ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی'۔

اگر برطانوی سائنسدان ستمبر تک اس ویکسین کو تیار کرکے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں پھر بھی ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کے لیے کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

پروفیسر سارہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سے سرمائے کے لیے بات چیت ہورہی ہے اور حتمی نتائج سے پہلے ہی پروڈکشن بھی شروع کردی جائے گی، جس سے لوگوں کو ویکسین تک رسائی فوری مل سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو خزاں تک کامیابی ممکن ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں