عالمی ادارہ صحت نے کچھ دن قبل نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے علاج کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کردہ دوا ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کی آزمائش کو روک دیا تھا۔

ادارے نے اعلان کیا کہ اس کی جانب سے کورونا وائرس کے علاج کے لیے کلوروکوئن کا استعمال اس لیے روکا گیا کیوں کہ تحقیق میں اس کے تحفظ پر سوالات اٹھائے گئے تھے حتیٰ کہ ایک تحقیق میں یہ تک کہا گیا تھا کہ اس سے اموات کے خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسس نے کلورو کوئن سے کورونا وائرس کے ممکنہ علاج کی آزمائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ عالمی ادارہ صحت نے ’اس پر عارضی پابندی لگادی ہے جب تک اس سے متعلق سیفٹی ڈیٹا کا جائزہ لیا جارہا ہے‘۔

مگر اب عالمی ادارے نے ایک بار پھر اس دوا کے ٹرائل کو ایک بار پھر شروع کردیا ہے۔

اس کی وجہ اس تحقیق پر سوالات سامنے آنا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اس دوا کا استعمال کورونا وائرس کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے سائنسدانوں کی ٹیم کی سربراہ سومیا سوامی ناتھن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا 'ہم نے گزشتہ ہفتے عارضی طور پر ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کے ٹرائل کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کی بنیاد چند رپورٹس تھیں جن میں کہا تھا کہ اس سے اموات کی شرح بڑھتی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا 'اب ہم پراعتماد ہیں اور اموات کی شرح میں کسی قسم کا فرق نظر نہیں آیا، اس لیے ڈیٹا سیفٹی مانیٹرنگ کمیٹی اس کے ٹرائل دوبارہ شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہے'۔

خیال رہے کہ کووڈ 19 کے لیے ابھی کوئی علاج یا ویکسین موجود نہیں اور ہائیڈروآکسی کلوروکوئن اور ریمیڈیسیور کو آزمایا جارہا ہے۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ ابھی ایسے شواہد نہیں ملے کہ کوئی دوا کووڈ 19 کے مریضوں میں اموات کی شرح کم کردیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ٹرائل کو جاری رکھنا بہت اہم ہے 'حتمی جواب کے حصول کا واحد راستہ اچھے طریقے سے کیے جانے والے ٹرائلز ہیں، اسی سے ہم جان سکتے ہیں کہ یہ ادویات یا حکمت عملیاں کس حد اموات اور بیماری کو کم کرنے میں مددگار ہیں'۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آغاز سے ہی ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کے استعمال کی پر زور حمایت کررہے ہیں بلکہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا تھا کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن نے کورونا وائرس کے علاج کے لیے اس دوا کی منظوری دے دی ہے جس کی بعد میں تردید سامنے آگئی تھی۔

بعدازاں امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ دوا خود بھی استعمال کررہے ہیں اور انہوں نے یہ فیصلہ ڈاکٹر اور دیگر افراد کی جانب سے اس دوا کی حمایت پر کی۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’میرے خیال سے یہ اچھی چیز ہے اور میں نے اس کے بارے میں بہت سے اچھی کہانیاں سنی ہیں‘،

ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت کے ہی ماہرین کی جانب سے کلورو کوئن دوا سے متعلق خطرات کو بھی مسترد کردیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دوا کا ٹرائل روکنے کا اعلان کے بعد پاکستان میں بھی اس دوا کی آزمائش روکنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کے اثرات پر سب سے بڑی تحقیق کے نتائج میں دریافت کیا گیا تھا کہ کہ اس سے فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

15 ہزار کے قریب افراد کا علاج کلوروکوئن (ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کی پرانی قسم)، ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن یا ان دونوں ادویات کو ایک اینٹی بائیوٹیک کے ساتھ دیا گیا جبکہ باقی افراد کو ان میں سے کوئی دوا نہیں دی گئی اور کنٹرول گروپ کے طور پر کام کیا گیا۔

ان ادویات کو استعمال کرنے والے مریضوں میں سائنسدانوں نے دل کی دھڑکن کی سنگین بے ترتیبی کے خطرے کو دریافت کیا۔

محقققین نے دریافت کیا کہ جن افراد کو کلوروکوئن یا ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن دی گئی ان میں ہسپتال میں موت کا خطرہ ان افراد کے مقابلے میں 16 سے 18 فیصد زیادہ تھا جن کو یہ ادویات استعمال نہیں کرائی گئیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے تھے اور اب اس کے ایڈیٹرز نے اس کے نتائج پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ڈیٹا اور اعدادوشمار پر سوالات اٹھائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تحقیق کے نتائج پر خدشات کے تاثرات جاری کرکے قارین کو اس حقیقت سے خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری توججہ میں سنجیدہ سائنسی سوالات آئے ہیں۔

اگرچہ اب اس دوا کے ٹرائل دوبارہ شروع ہورہے ہیں اور مئی کے آخر میں تحقیق کے نتائج پر بھی شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں مگر مگر اس دوا کی افادیت کے شواہد اب تک ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔

ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا اتنی مددگار نہیں جتنی ڈاکٹروں کو توقع ہے۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی آئروین میڈیکل سینٹر کی 13 سو مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن سے وینٹی لیٹرز کی ضرورت کی شرح میں کوئی کمی نہیں ائی جبکہ ہلاکت کا خطرہ بھی کم نہیں ہوا۔

یورپ اور چین میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ مریضوں کو اس دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ان رپورٹس کے بعد یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بیان جاری کیا تھا کہ طبی ماہرین اس دوا کو کووڈ 19 کے لیے تجویز نہ کریں اور صرف تحقیق یا ہسپتال کے اندر ہی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں