عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو گزشتہ روز اس وقت دنیا بھر کے طبی ماہرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب یہ بیان جاری کیا گیا کہ کووڈ 19 کے ایسے مریض، جن میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ بہت کم اس وائرس کو آگے پھیلاتے ہیں۔

گزشتہ روز معمول کی پریس بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار اور وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکوف نے کہا تھا 'ایسا نظر آتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض نہ ہونے کے برابر اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں، ہمارے پاس ایسے ممالک کی متعدد رپورٹس ہیں جن کی جانب سے کانٹیکٹ ٹریسنگ پر بہت تفصیلی کام کیا گیا ہے، انہوں نے ایسے مریضوں کے کیسز کا تعاقب کیا، ان کے جاننے والوں کی جانچ پڑتال کی اور وہ وائرس کی منتقلی کو دریافت نہیں کرسکے، ایسا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے'۔

اس بیان پر منگل کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں، صحافیوں، وبائی امراض کے ماہرین کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر بھی بہت شدید ردعمل آیا جو اتنا زیادہ تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈن میں سوال جواب لائیو اسٹریم کرتے ہوئے اس بیان پر وضاحت جاری کی۔

عالمی ادارے نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ غلطی نہیں تھی مگر بغیر علامات والے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والے لفظ اسمپٹومیٹک کا مطلب غلط لیا جاتا ہے جس میں ایسے افراد شامل ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوتی یا ایسے افراد جن میں بیماری کی شدت بہت معمولی ہوتی ہے۔

عالمی ادارے نے زور دیا کہ کورونا وائرس پر تحقیق بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور جو بیان دیا گیا تھا وہ کم تعداد میں تحقیقی رپورٹس اور ڈیٹا سیٹس کے بارے میں تھا، اس میں تمام کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جن پر ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی۔

ماریہ وان نے منگل کو کہا 'میں نے بہت کم کا جملہ استعمال کیا تھا اور میرے خیال میں اس حوالے سے غلطی فہمی ہوئی کہ دنیا بھر میں اس طرح کے بغیر علامات والے مریضوں کی جانب سے وائرس آگے منتقل کرنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، میں نے جو حوالہ دیا تھا تحقیقی رپورٹس کے ایک مجموعے کا تھا'۔

ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک ریان نے سوال جواب کے اس سیشن میں کہا 'ایسا ہوتا ہے، میں اس بات یقین رکھتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کس حد تک'۔

اس بات کا اب تک واضح جواب نہیں کہ بغیر علامات والے ایسے کتنے مریض آگے لوگوں کو کووڈ 19 کا شکار کرسکتے ہیں مگر ڈبلیو ایچ او کے مطابق کچھ ڈیٹا سیٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ شرح 40 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

اس پہلو کے حوالے سے ایک الجھن یہ بھی ہے کہ متعدد افراد اس حوالے سے بہت زیادہ متعدی ہوتے ہیں اور بہت آسانی سے وائرس کو دیگر تک پہنچا سکتے ہیں، وہ بھی اس سے قبل جب انہیں بیماری کا علم ہوتا ہے۔

ایسا وہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی کردیتے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان افراد میں چند دنوں میں بیماری کی واضح علامات ظاہر ہوجائیں، مگر شروع میں وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اپنے ارگرد وائرس پھیلاتے رہتے ہیں۔

مائیک ریان کے مطابق 'اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ریسٹورنٹ میں ہو اور خود کو صحت مند سمجھ رہے ہوں اور بخار کا آغاز ہوجائے، آپ گھر میں رہنے کا خیال نہیں کرتے، مگر یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وائرل لوڈ بہت زیادہ ہوتا ہے، یعنی بیماری اس لمحے میں پھیل سکتی ہے اور یہ مرض بہت زیادہ متعدی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ وائرس دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا'۔

ماریہ وان نے اس حوالے سے کہا کہ کورونا وائرس کے متعدد مریض مکمل طور پر علامات سے محفوظ نہیں ہوتے، مگر ان میں بیماری کی شدت بہت کم ہوتی ہے، ایسے افراد کے لیے تحقیقی رپورٹس میں اسمپٹومیٹک کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، مگر یہ درست نہیں ہے، کیونکہ ایسے افراد تھوڑی بہت تو بیماری محسوس کرتے ہیں مگر اتنے بیمار نہیں ہوتے کہ وائرس کی موجودگی کا یقین کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا 'جب ہم اسمپٹومیٹک کہتے ہیں، تو ہمارا مطلب ایسا فرد ہوتا ہے جس میں علامات نہیں ہوتیں، کسی بھی قسم کی علامات نہیں ہوتیں'۔

عالمی ادارے نے زور دیا کہ سماجی دوری، ہاتھوں کی صفائی، اپنے چہرے کو چھونے سے گریز اور علامات والے مریضوں کا سراغ لگا کر ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

مائیک ریان نے کہا 'وائرس کو روکنا ممکن ہے، یہ اتنا متعدی نہیں کہ اسے روکا نہ جاسکے'۔

تبصرے (0) بند ہیں