متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش نے مشرق وسطیٰ میں بدامنی پھیلانے والوں کو احتساب کی دھمکی دے دی۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق انور قرقاش نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ ہماری عرب دنیا اور اس کے دارالحکومتوں کو طشتری میں رکھ کر علاقائی سطح پر مداخلت کے لیے پیش کردیا جائے اور اس پر کوئی احتساب اور سزا بھی نہ ہو‘۔

مزید پڑھیں: لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے ترکی کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا

انہوں نے کسی بھی گروپ یا ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ملیشیاؤں اور اجرتی جنگجوؤں کا زمانہ قصہ پارینہ بن چکا ہے‘۔

انور قرقاش نے اپنی ٹوئٹ میں عرب دنیا کو کمزور کرنے والوں کے کڑے احتساب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’جو کوئی بھی اپنی حد سے تجاوز کرے گا اور عرب دنیا کو کمزور کرنے کے لیے علاقائی قوتوں کو لائے گا، تاریخ اس کا کڑا احتساب کرے گی‘۔

انور قرقاش نے چند روز قبل اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ لیبیا میں سرت شہر کے اطراف جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں جس کے سنگین انسانی اور سیاسی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم یو اے ای سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فائر بندی کو فوری طور پر ممکن بنایا جائے اور لیبیا کے فریقوں کے درمیان بات چیت شروع کی جائے۔'

یہ بھی پڑھیں: ترکی اور روس کا لیبیا میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت (جی این اے) نے ترکی کی عسکری مدد سے جنوبی فورسز سے کنٹرول واپس حاصل کیا تھا۔

خیال رہے کہ ایل این اے کو متحدہ عرب امارات، روس اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔

گزشتہ سال طرابلس کی طرف پیش قدمی کے دوران ایل این اے کو مصری اور متحدہ عرب امارات کے فضائی حملوں کی مدد حاصل تھی۔

گزشتہ ماہ امریکا نے کہا تھا کہ روس نے شام کے راستے ایک ایل این اے اڈے پر کم از کم 14 ایم جی 29 اور ایس یو 24 جنگی طیارے بھیجے تھے جہاں ان کے روسی فضائیہ کے نشانات کو ہٹا دیا گیا تھا۔

3 جنوری کو عرب لیگ نے ترک پارلیمنٹ کی جانب سے لیبیا میں فوج بھیجنے کی منظوری اور اس حوالے سے صدر رجب طیب اردوان کو اختیار دینے پر شدید مذمت کی تھی۔

مزید پڑھیں: ترک پارلیمنٹ میں فوج لیبیا بھیجنے کی منظوری

خیال رہے کہ لیبیا میں ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے 2011 میں اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

سال 2014 کے بعد سے لے کر اب تک لیبیا کے مغربی اور مشرقی حصوں میں حکومتی سطح پر تنازعات برقرار ہیں، جنہیں مختلف عسکریت پسندوں اور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔

لیبیا کے کئی علاقوں میں شدت پسند تنظیم 'داعش' کو بھی کنٹرول حاصل ہے۔

ترکی، لیبیا میں اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ فیض السیراج کی گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ روسی فوجی کنٹریکٹرز کو مخالف گروپ جنرل خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔

یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی- طرابلس معاہدے: عرب لیگ کا لیبیا میں 'بیرونی مداخلت' روکنے پر زور

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں