انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی بلوچستان میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے ایک سپاہی کے ہاتھوں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم محمد حیات مرزا کی ہلاکت کو ناقابل قبول فعل قرار دے دیا۔

واضح رہے کہ ضلع کیچ کے علاقے تربت میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کو قتل کرنے کے الزام میں پولیس نے فرنٹیئر کور کے ایک سپاہی کو گرفتار کیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیش شروع کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: تربت میں طالبعلم کے قتل کے الزام میں ایف سی اہلکار گرفتار

ایف سی جنوبی کے عہدیداروں نے جمعہ کو طالب علم کے قتل کی اندرونی تفتیش مکمل کرنے کے بعد سپاہی شاہد اللہ کو تربت پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایف سی اہلکاروں نے حیات بلوچ کو ان کے والدین کے سامنے قتل کیا جو ناقابل قبول فعل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف سی کے متعلقہ اہلکار کو پولیس کے حوالے کیا جاچکا ہے اور ایف آئی آر بھی درج کی جا چکی ہے۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ انکوائری میں اس امر کی کھوج ضروری ہے کہ اس طرح کسی شہری کو قتل کرنے کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے؟

دوسری جانب سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے حیات بلوچ کے قتل پر اجلاس طلب کرلیا۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی صدارت میں 28 اگست کو ہوگا۔

علاوہ ازیں کمیٹی نے آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس سے پیش رفت سے متعلق بریفنگ دینے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کے شہر تربت میں دھماکا، ایک شخص جاں بحق، 7 زخمی

واضح رہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) نجیب اللہ پنڈرانی نے تفتیش کے لیے اہلکار کی تحویل کا مطالبہ کیا تھا۔

نجیب اللہ پنڈرانی نے کہا تھا کہ ہم نے ایف سی کے ایک شخص کے خلاف، تربت سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم محمد حیات مرزا کے قتل کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس نے مقتول کے بھائی محمد مراد بلوچ کی شکایت پر ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا۔

مراد بلوچ نے اپنی شکایت میں کہا کہ وہ محکمہ صحت کا ملازم ہے اور 13 اگست کو اس وقت ڈیوٹی پر تھا جب اس کو اطلاع ملی کہ اس کے بھائی کو ابصار کے علاقے میں ایف سی نے قتل کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں جائے وقوع پر پہنچا تو مجھے اپنے بھائی کی لاش خون میں لت پت پڑی ملی۔

خیال رہے کہ یہ افسوسناک واقعہ ایف سی کے قافلے پر بم حملے کے بعد پیش آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: تربت سے 15 افراد کی لاشیں برآمد

پولیس کے مطابق مقتول کے والد نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ایف سی نے سرچ آپریشن شروع کیا اور کھجوروں کے باغ میں داخل ہوئے جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کام کررہے تھے، والد نے بتایا کہ 2 ایف سی اہلکار آئے جن میں سے ایک سادھے کپڑوں میں ملبوس تھا، وہ میرے بیٹے حیات مرزا کو لے کر چلے گئے اور آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد سڑک پر لے جا کر اسے گولی مار دی۔

مراد بلوچ نے پولیس کو کہا کہ میرے والد اور موقع پر موجود دیگر افراد ایف سی کے اس شخص کی شناخت کرسکتے ہیں جس نے میرے بھائی کے جسم میں 8 گولیاں داغیں۔

مراد بلوچ نے کہا کہ حیات مرزا کووڈ-19 کی وجہ سے چند ماہ قبل کراچی یونیورسٹی بند ہونے کے بعد والد کے ساتھ کھجور کے باغ میں ٹھیکے پر کام کر رہا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بھائی آخری سال کا طالب علم تھا اور سی ایس ایس کے امتحانات میں شرکت کا ارادہ رکھتا تھا۔

قبل ازیں رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ حیات مرزا کو اس وقت مارا گیا تھا جب ایف سی کا قافلہ بم حملے کی زد میں آیا تھا جس میں 3 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تربت میں دھماکے کے بعد کا منظر

تاہم گواہوں کے بیانات کے پیش نظر ڈی پی او پنڈرانی نے تحقیقات کا حکم دیا اور تحریری طور پر ایف سی جنوبی کے اعلیٰ حکام سے ایف سی سپاہی کو تحویل میں دینے کا مطالبہ کیا، جس پر ایف سی کے عہدیداروں نے واقعے کی اندرونی تحقیقات کیں اور پھر شاہد اللہ کو پولیس کے حوالے کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں