شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے قومی سلامتی کے مشیران کے اجلاس میں بھارت کے اجیت دوول کی جانب سے پاکستان کے نقشے پر اعتراض کرتے ہوئے واک آؤٹ پر انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق ایس سی او کے قومی سلامتی کے مشیروں کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا جہاں بھارت کے ان پرجوش دعوؤں کو مسترد کردیا گیا جو انہوں نے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف پر اپنے پس منظر ڈسپلے کے طور پر پاکستان کا نیا سیاسی نقشے پر باضابطہ اعتراض کے طور پر کیا تھا تاہم انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں:کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتا پاکستان کا نیا سرکاری نقشہ پیش

دفترخارجہ کے مطابق بھارت کی نمائندگی کرنے والے اجیت ڈوول نے سیاسی نقشے کی نمائش پر پاکستان کے خلاف باضابطہ طور پر یہ اعتراض کیا تھا کہ نئے سیاسی نقشے میں پاکستان نے اپنے علاقوں کے طور پر 'خودمختار ہندوستانی خطے' دکھائے ہیں۔

اجلاس میں پاکستان نے اجیت دوول کے اعتراض پر جواب میں کہا کہ 'بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کو جموں وکشمیر کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے کو ہندوستان کے حصے کے طور پر دعویٰ کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے'۔

بیان کے مطابق پاکستان نے بھارتی دعوؤں کو بھی واضح طور پر مسترد کردیا اور کہا کہ نئے سیاسی نقشے میں بھارتی سرزمین کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایس سی او سیکریٹریٹ کو آگاہ کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی غیرقانونی اور یک طرفہ کارروائیوں سے جموں و کشمیر تنازع پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی شدید خلاف ورزی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے زور دیا کہ نیا سیاسی نقشہ پاکستان کے حقوق اور کشمیر کے عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

پاکستان نے زور دیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے حصول کے لیے پر عزم ہے۔

دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 'شنگھائی تعاون تنظیم نے پاکستان کی پوزیشن پر اتفاق کیا اور ڈاکٹر معید یوسف نے پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کو ہی پس منظر میں واضح طور پر رکھتے ہوئے گفتگو جاری رکھی اور اجلاس مکمل ہونے تک اپنا مؤقف برقرار رکھا، جسے نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم نے قبول کیا بلکہ اس کی پذیرائی بھی کی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان نے بھارت کے نئے 'سیاسی نقشے' مسترد کردیے

دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایک اہم کثیرالجہتی فورم کو چھوٹی دو طرفہ بحث سے مشروط کرنے کے لیے کی گئیں کوششیں ناکام ہوئیں اور ایس سی او کے رکن ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے اجلاس کے دوران پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ اور کشمیر کے عوام کی امنگوں پر روشنی ڈالی گئی اور منصفانہ حل کی کوششوں کو پذیرائی ملی۔

ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے بھارت کی وزارت خارجہ کے بیان سے متعلق کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو خطے میں تعاون کا پلیٹ فارم گردانتا ہے اور اس کے ساتھ مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں اور ہم مثبت اور تعمیری کردار ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ایس سی او کے قومی سلامتی کے مشیران کے اجلاس میں بھارت نے پاکستان کے سرکاری نقشے پر اعتراض کرتے ہوئے ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی جبکہ نقشہ پاکستان کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے مکمل یک جہتی کا اظہار ہے۔

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ہم بھارت کی جانب سے اس معاملے پر اٹھائے گئے بے بنیاد اعتراض کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ 4 اگست 2020 کو وفاقی کابینہ نے پاکستان کے نئے سرکاری نقشے کی منظوری دی تھی جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت دیگر متنازع علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آئینی دہشت گردی کی، راجا فاروق

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم دنیا کے سامنے پاکستان کا سیاسی نقشہ لے کر آرہے ہیں جو پاکستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ پاکستان اور کشمیر کے لوگوں کے اصولی مؤقف کی تائید کرتا ہے اور بھارت نے کشمیر میں پچھلے سال 5 اگست کو جو غاصبانہ اور غیرقانونی قدم اٹھایا تھا اس کی نفی کرتا ہے'۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج سے سارے پاکستان میں پاکستان کا سرکاری نقشہ وہی ہوگا جس کو آج وفاقی کابینہ نے منظور کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ' اسکولوں، کالجوں اور عالمی سطح پر اب پاکستان کا یہ نقشہ ہوگا'۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ 'میں پھر سے واضح کردوں کہ کشمیر کا صرف ایک حل ہے، وہ حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں ہے، جو کشمیر کے لوگوں کو حق دیتی ہیں کہ ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں