موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم عابد کی اہلیہ زیر حراست، ابتدائی بیان ریکارڈ

موٹروے ریپ کیس کا مرکزی ملزم تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
موٹروے ریپ کیس کا مرکزی ملزم تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

لاہور-سیالکوٹ موٹروے گینگ ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد مالہی کی گرفتاری تو تاحال عمل میں نہیں آسکی تاہم پولیس نے ملزم کی اہلیہ کو حراست میں لے لیا، جس نے اپنا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کرادیا ہے۔

اس حوالے سے کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ماڈل ٹاؤن لاہور کے ڈی ایس پی حسنین حیدر نے ڈان کو بتایا کہ ملزم عابد مالہی کی بیوی بشریٰ کو گزشتہ روز حراست میں لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ بشریٰ کو عابد مالہی کے والدین کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔

مزید پڑھیں: موٹروے گینگ ریپ کے مرکزی ملزم کا نام ایف آئی اے کی 'بلیک لسٹ' میں شامل

علاوہ ازیں ڈی ایس پی نے بتایا کہ بشریٰ نے پولیس کو اپنا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کرایا ہے جس کے مطابق جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے چھاپہ مار کارروائی کی گئی تو عابد پہلے موقع سے فرار ہوا جبکہ وہ بعد ازاں وہاں سے مانگا منڈی کی طرف آگئیں۔

حسنین حیدر کا کہنا تھا کہ بشریٰ نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ انہیں عابد کے بارے میں کچھ نہیں معلوم اور اس کا ان سے رابطہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس زیر حراست تمام لوگوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے لیکن ابھی تک عابد کے ٹھکانے کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

اسی روز پولیس نے شریک ملزم شفقت علی کی جانب سے دوران تفتیش فراہم کی گئی معلومات پر تیسرا ملزم اقبال عرف بالا کو گرفتار کرلیا تھا۔

16 ستمبر کو پنجاب پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لیے کی جانے درخواست کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس کا نام 'بلیک لسٹ' میں ڈال دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں