جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2020
سابق صدر آصف علی زرداری کے وارنٹ جاری کیے گئے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق صدر آصف علی زرداری کے وارنٹ جاری کیے گئے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

قومی احتساب بیورو (نیب) نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 8 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن سے متعلق ضمنی ریفرنس میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

اس حوالے سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کردیے۔

مذکورہ معاملے پر نیب نے مؤقف اپنایا ہے کہ آصف زرداری اربوں روپے کے مشکوک ٹرانزیکشن کے کیس میں مطلوب ہیں، سابق صدر نے اس مشکوک ٹرانزیکشن کے ذریعے ذاتی گھر خریدا۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں 8 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن سے متعلق کیس میں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پر سماعت آج ہوگی، جس میں نیب کی جانب سے ان کی ضمانت کو مسترد کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی درخواست پر نیب کو نوٹس

خیال رہے کہ عدالت عالیہ نے آصف زرداری کی آج تک عبوری ضمانت منظور کر رکھی ہے جبکہ آج ان کے نیب کے وکلا دلائل دیں گے۔

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی شدید مذمت کی۔

پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اس نیب گردی کو مسترد کرتی ہے، آصف زرداری کے وارنٹ جاری کرنا تشویشناک، قابل مذمت اور انتقامی کارروائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر کورونا اور بیماری کے باوجود پابندی سے عدالت کے روبرو پیش ہوتے آئے ہیں، تاہم عدالت میں پابندی سے پیش ہونے اور تعاون کے باوجود وارنٹ جاری کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

نفیسہ شاہ کے مطابق سابق صدر ہسپتال میں زیرعلاج ہیں، اس دوران وارنٹ جاری کرنا ملک میں انارکی پھیلانے کی سازش ہے، حکومت اس طرح کے فیصلوں سے اپوزیشن کی تضحیک کرنا اور حالات خراب کرنے کی سازش فوری بند کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے کے ایک روز قبل وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ حکومت کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ نیب حکومت کے ہاتھوں میں کھیلنا بند کرے، پیپلزپارٹی نیب کے اس کالے قانون کو مسترد کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد وارنٹ کے اجراء سے متعلق فیصلہ کریں گے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ سابق صدر آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور متعدد دیگر کاروباری افراد کے خلاف سمٹ بینک، سندھ بینک اور یو بی ایل میں 29 'بینامی' اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی جعلی ٹرانزیکشنز سے متعلق 2015 کے کیس کے طور پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اگست 2018 میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری و فریال تالپور درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں