اپوزیشن کا ‘کراچی واقعے’ کےخلاف تحقیقات کیلئے سینیٹ کمیٹی بنانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2020
حکومتی اراکین نے انکوائری رپورٹ تک کمیٹی بنانے کی مخالفت کی—فوٹو: ڈان نیوز
حکومتی اراکین نے انکوائری رپورٹ تک کمیٹی بنانے کی مخالفت کی—فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں اپوزیشن نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے کا مبینہ طور پر دروازہ توڑنے، کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے مبینہ اغوا کی تحقیقات کے لیے ایوان کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے قرارداد پیش کردی۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفرالحق نے قرارداد پیش کی اور کہا کہ کراچی میں مریم نواز کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس طرح آئی جی سندھ کو اغوا کیا گیا، اس پر سینیٹ کی کمیٹی قائم کی جائے جو معاملے کی تحقیقات کرے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مزار قائد کے تقدس کی پامالی کے الزام میں کیپٹن (ر) صفدر گرفتار

قرارداد میں کہا گیا کہ کمیٹی واقعے کے حقائق سامنے لائے اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔

سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ واقعے کی صوبائی حکومت اور افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے انکوائری کا اعلان کیا ہے، اس لیے دونوں انکوائریز کی رپورٹس کا انتظار کرنا چاہیے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہر ادارے کی بلاشہ اپنی ذمہ داری ہے لیکن قومی معاملات پر سینیٹ کا کردار اہم ہوتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سب ان رپورٹس کا انتظار کریں اور اس کے بعد کوئی کمیٹی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو ایوان میں زیر بحث لایا جائے اور پھر کمیٹی تشکیل دی جائے۔

قائد ایوان نے کہا کہ ایوان بہت محترم ہے اس لیے ایوان کی ذمہ داری بھی زیادہ بنتی ہے اور جب تک کوئی بات سامنے نہیں آتی محض تصورات پر کمیٹی بنانے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ایوان کا تقدس برقرار رہے۔

اس واقعے سے آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے، شیری رحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ سینیٹ، ہاؤس آف فیڈریشن ہے اور یہ صوبوں کا معاملہ ہے اس لیے ایوان کا استحقاق ہے اور ذمہ داری بنتی ہے کہ سینیٹ اپنا کردار ادا کرے اور تحقیقات کا کوئی راستہ نکالے۔

مزید پڑھیں:سندھ میں جو کچھ ہوا اس قسم کے ہتھکنڈوں سے ملک میں انتشار بڑھے گا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ صرف انتظامیہ کام کرے، یہ بڑا واقعہ تھا جو صوبوں اور وفاق کے رشتے کو ڈانوا ڈول کر رہا ہے کیونکہ اتنی بڑی بات ہوئی ہے کہ ایک آئی جی کو اغوا کرکے ان سے ایف آئی آر پر دستخط کروائے گئے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ اس کے بعد ایڈیشنل آئی جیز، ڈی آئی جیز اور ایس پیز سمیت اتنے سارے افسران نے درخواستیں دیں اور 10 دن کے بعد اپنی درخواست واپس لینے پر نظر ثانی کریں گے، ہمیں اس وقت تک تحقیقات اور انوسٹی گیشن کے نتائج نظر آنے چاہیئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی مذمت کریں اور اس پر یہاں تفصیلی بات کی گئی ہے اور ٹی وی پر وفاقی وزرا کے بیانات سامنے آئے ہیں کہ وہ صوبے کے اعلیٰ افسر اور گریڈ 22 کے افسر پر اس طرح دھونس دھمکی سے ایف آئی آر کٹوا رہے ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ایک خاتون کے کمرے کا دروازہ توڑنے کی اجازت دی جاتی ہے یہ کہاں کا قانون ہے، جنگل کا قانون ہے اور اس پر پوری پولیس نے مزاحمت کی ہے، یہ حساس معاملہ اور اس کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں اس لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر انوسٹی گیشن ہونی چاہیے اور ہماری بھی اتھارٹی ہونی چاہیے، سینیٹ کا اپنا کردار ہے اس لیے اس کو طاقت ور بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں:کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا معاملہ: 'سندھ حکومت ختم ہوجانے کا کہا گیا'

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں میں کئی معاملات پر ایف آئی آر درج ہونے میں دیر ہوتی ہے، خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور دہشت گرد تنظیموں سمیت دیگر معاملات میں مقدمہ درج ہونے میں دیر لگتی ہے اور غریبوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ایک جلسے کے بعد ایف آئی آر منٹوں میں نکالی جاتی ہے اور وفاقی وزیر ٹی وی پر آتا ہے اور پی ٹی آئی کے دیگر اراکین پولیس افسران کو دھمکی دیتے ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلے کہتی تھی کہ ہم پولیس پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتے لیکن اب اس دھونس دھمکی سرکار نے ملک میں سنگین بحران پیدا کردیا ہے اور اس سے آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ صوبوں کے انتظامی معاملات چلانے والے تمام افسران کو توڑا گیا ہے جو آئندہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آرمی چیف کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن سینیٹ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دے دیں۔

ریاست کے ایک ادارے نے دوسرے کے اقدام کے خلاف احتجاج کیا، رضا ربانی

سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے سینیٹ یا پارلیمان کی مداخلت ضروری ہے اور قواعد کے مطابق اس معاملے پر سینیٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی۔

یہ بھی پڑھیں:کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری: وزیر اعظم نے آئین توڑا ہے، ان کو جواب دینا ہوگا، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت نے صوبے کے معاملات میں براہ راست مداخلت کی، اس سے صوبائی خود مختاری متاثر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہوسکتا ہے پارلیمان تاریخ کی مجرم بنے کیونکہ پولیس باوردی اور مسلح فورس ہے، جس نے چھٹی کی درخواست دے کر احتجاج رجسٹر کروایا۔

رضا ربانی نے کہا کہ باوردی فورس کا اس طرح کا احتجاج تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے، پولیس افسران جانتے ہوئے ریاست کے خلاف یا ریاست کے کسی اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اگر اس کا ادراک نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے تحقیقات کا اعلان کیا جو خوش آئند ہے لیکن یہ انکوائری ادارہ جاتی ہے، یہاں ایک ادارے نے دوسرے ادارے کے اقدامات کے خلاف احتجاج کیا ہے جو ریاست اور وفاق کا حصہ ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اگر پارلیمان نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو حالات بگڑ سکتے ہیں کیونکہ ایک وزیر نے آئی جی اور چیف سیکریٹری کو دھمکی دی کہ معاملہ کابینہ کے سامنے اٹھاؤں گا جبکہ آئی جی اور چیف سیکریٹری وفاقی کابینہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے ترجمان کا 20 اکتوبر کا بیان دیکھیں گے تو ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کو اس واقعے کا پہلے ہی علم تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ اب سوال اداروں اور وفاق کا ہے اس لیے سینیٹ اور پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ حقائق سامنے آئیں اور ذمہ دار بے نقاب ہوں۔

کوئی قائد اعظم کے مزار پر ہوئے واقعے کی بھی تو بات کرے، فروغ نسیم

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کا استحقاق اور کردار ہے اس لیے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور سچ سامنے آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: اگر آئی جی کو اغوا کیا گیا تو اس کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی؟ شہزاد اکبر

انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر دباؤ تھا تو وہ غلط تھا لیکن قائد اعظم کے مزار پر ہوئے اقدام کی بھی تو کوئی بات کرے کہ پولیس کس وجہ سے ایف آئی آر درج نہیں کر رہی تھی یا تاخیر کر رہی تھی، اس کا بھی تعین کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کے مزار پر ہوئے اقدام کو بھی دیکھا جائے اگر وہ ٹھیک تھا کوئی بات نہیں لیکن اگر غلط تھا تو اس پر کیا سزا جزا ہے سب متعلقہ باتیں ہیں۔

چیئرمین سینیٹ نے بحث کے بعد معاملہ سینیٹ کی کمیٹی برائے قانون کے بھیج دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں