اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ مچل بیچلیٹ نے آرمینیا اور آذربائیجان کو نیگورونو-کاراباخ میں لڑائی کے دوران جنگی جرائم سے خبردار کرتے ہوئے شہری علاقوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ نہ بنانے پر زور دیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق مچل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ ‘نیگورنو-کاراباخ میں جاری آرٹلری حملے جنگی جرائم کا باعث بن سکتے ہیں’۔

انہوں نے آرمینیا اور آذربائیجان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جھڑپوں کے دوران شہری آبادی، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے نہ کریں۔

مزید پڑھیں: امریکی ثالثی میں جنگ بندی کے باوجود نیگورنو-کاراباخ میں لڑائی جاری

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے جینوا میں آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے شہریوں کو نشانہ بنانے گریز کرنے کے لیے معاہدے پر اتفاق کرنے کے باوجود شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی اطلاعات گزشتہ دو روز سے آرہی ہیں۔

خیال رہے کہ نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں ہوئی ہیں جبکہ اسٹیپنکرٹ اور ترتار جیسے شہریوں میں مرکزی مارکیٹ پر حملے کیے گئے۔

مچل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ ‘سوشل میڈیا پر کئی جعلی ویڈیوز بھی گردش کررہی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میڈیا اداروں کی جانب سے ویڈیوز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جس میں آذربائیجان کے فوجیوں کو آرمینیا کی فوجی وردی میں ملبوس دو قیدیوں کو قتل اور پریشان کن معلومات کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات جینوا کنونشن کے تحت یہ جنگی جرائم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

مچل بیچلیٹ نے کہا کہ ‘متنازع علاقے میں سڑکیں تباہ، گھر کا ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں اور لوگ وہاں سے بھاگنے یا زیر زمین چلے جانے پر مجبور ہیں’۔

انہوں نے اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ فریقین شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے ایسے افراد کے خلاف تفتیش کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں جو خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

دوسری جانب نیگورنو-کاراباخ کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ تازہ جھڑپوں میں مزید 11 فوجی ہلاک ہوئے جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار 177 ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: نیگورنو-کاراباخ میں جھڑپیں، آرمینیا کے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 974 ہوگئی

خیال رہے کہ 27 ستمبر کو شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک سیکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکہ روس کی جانب سے دو مرتبہ جنگ بندی کی باقاعدہ کوششیں کی گئیں جو ناکام ہوچکی ہیں۔

عالمی طاقتیں خطے کو کشیدگی سے بچانے اور لڑائی کو مزید پھیلنے سے روکنے کی خاطر کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ اس لڑائی میں روس اور ترکی سمیت دیگر ممالک کے ٹکراؤ کا خدشہ ہے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کی تیسری کوشش امریکا کی جانب سے کی گئی تھی اور واشنگٹن میں 25 اکتوبر کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے الگ الگ مذاکرات کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق آذربائیجان اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ نے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں دونوں ممالک کو مبارک باد دیتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ‘آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پیشنیان اور آذر بائیجان کے صدر الہام علی یوف کو مبارک ہو، جنہوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے’۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘بہت سی جانیں بچ جائیں گی’۔

یہ بھی پڑھیں: نیگورنو-کاراباخ میں ہلاکتوں کی تعداد 540 سے زائد، انسانی بحران کا خدشہ

جنگ بندی کے نفاذ کے فوری بعد آذربائیجان کی وزارت دفاع کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ آرمینیا کی فورسز نے ترتر اور لیچن کے مختلف علاقوں میں شہری آبادی پر شیلنگ کی جو متنازع خطے سے بہت دور ہیں۔

نیگورنو-کاراباخ کے حکام نے آذربائیجان کی وزارت دفاع کے بیان کو مسترد کیا اور کہا کہ آذربائیجان کی فورسز نے شمال مشرقی علاقے میں میزائل داغے اور طیاروں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔

یاد رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990 میں سوویت یونین سے آزادی کے ساتھ ہی کاراباخ میں علیحدگی پسندوں سے تنازع شروع ہوا تھا اور ابتدائی برسوں میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان 1994 سے اب تک تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا نیگورنو-کاراباخ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

آرمینیا کے حامی علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا۔

بعد ازاں فرانس، روس اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا لیکن 2010 میں امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر ختم ہوگیا تھا۔

متنازع خطے نیگورنو-کاراباخ میں حالیہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

نیگورنو-کاراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے، آرمینیا نے مقامی جنگجوؤں کی مدد سے آذربائیجان کے علاقے پر خطے سے باہر سے حملہ کرکے قبضہ بھی کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں