پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
کئی ماہ لندن میں گزارنے کے بعد جہانگیر ترین پاکستان واپس آ گئے—فوٹو: ڈان نیوز
کئی ماہ لندن میں گزارنے کے بعد جہانگیر ترین پاکستان واپس آ گئے—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کئی ماہ برطانیہ میں گزارنے کے بعد پاکستان واپس آ گئے ہیں۔

جہانگیر ترین کے ہمراہ ان کے بیٹے علی ترین بھی پاکستان پہنچے ہیں۔

مزید پڑھیں: شوگر اسکینڈل: برطانیہ سے واپسی پر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گا، جہانگیرترین

اس سال کے اوائل میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے شوگر انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی تحقیقات میں جہانگر ترین سمیت بڑے بڑے ناموں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا جنہوں نے مبینہ طور پر اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔

وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ انگلینڈ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

برطانیہ سے وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور میں اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہا ہوں، علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو۔

ان کے کاروبار اور بیرون ملک روانگی کے حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا صرف ایک مقصد ہے کہ یہ دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

ان کا کہنا تھا کہ میں اپوزیشن کو جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔

دوسری جانب شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے جہانگیر ترین سے جواب طلب کرتے ہوئے انہیں تحقیقات کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، ابتدائی طور پر انہوں نے طلبی کے نوٹسز کو مسترد کردیا تھا تاہم بعدازاں انہوں نے جواب دینے کے لیے ایجنسی سے مزید وقت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے۔

ایف آئی اے نے جہانگیر ترین کی پاکستان اور بیرون ملک جائیداد، بینک اکاؤنٹس اور ان کی ٹرانزیکشنز خصوصاً بیرون ملک رقم کی منتقلی، ان کے اہلخانہ اور ملازمین کے بینک اکاؤنٹس اور چینی کے حوالے سے ان کی فرم جے ڈی ڈبلیو کی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

مزید پڑھیں: شوگر سبسڈی اسکینڈل: جے آئی ٹی نے جہانگیر ترین، علی ترین کو طلب کرلیا

جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم کے ایک طاقتور مشیر خاص اور بیورو کریٹ نے ایف آئی اے کو مشہور کاروباری شخصیت کے خلاف کارروائی کے لیے متحرک کیا تھا۔

وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں جہانگیر ترین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی تھی کہ وہ چینی کے اسکینڈل کی تحقیقات میں سرخرو ہوں گے۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

خیال رہے کہ حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے پہلا سوال یہ تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔

بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: شوگر انکوائری رپورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع میں توسیع

جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا۔

بعدازاں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔

دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی۔

جس پر 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔

دوسری جانب 28 جون کو وفاقی حکومت نے شوگر کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

بعدازاں 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عملدرآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں