ایل این جی پر میڈیا کا ایک حصہ دانستہ مخصوص تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے، ندیم بابر

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2020
شبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا— فوٹو: ڈان نیوز
شبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ ایل این جی کے مسئلے پر ایک چینل کے صحافی دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہے۔

شبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کے معاملے پر میڈیا میں بہت پروگرام ہو رہے ہیں لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حوالے سے آپ کی وساطت سے عوام کو آگاہ کریں کہ حکومت کیا کر رہی ہے کیونکہ بحیثیت جمہوری حکومت ہم جوابدہ ہیں۔

مزید پڑھیں: اوگرا کی غلطی سے آر ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ پچھلے تین چار ہفتے میں ایل این جی پر بہت سارے پروگرام کیے گئے ہیں، عمر ایوب صاحب بھی گئے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جواب دینے کے باوجود بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں میں دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے خصوصاً ایک چینل پر ایک اینکر جواب ملنے کے باوجود محض ایک سلیکٹڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے ہیں اور تصویر کشی کی کوشش کرتے ہیں۔

وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ وہ ایک اچھے صحافی ہیں لیکن دانستہ یا غیردانستہ سلیکٹڈ ڈیٹا لے کر ایک تاثر دے رہے ہیں اور ایک تاثر کے لیے آلہ کار بن رہے ہیں، ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 3 پلانٹس کو پی ایس او، ایس این جی پی ایل سے ایل این جی کی خریداری سے چھٹکارا مل گیا

ندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس کو شامل نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایل این جی لے کر آتے ہیں جو مقامی گیس سے مہنگی ہے تو جب تک ہم اس ایل این جی کی قیمت وصول نہ کر پائیں اور ایسے خریدار جو پوری قیمت دینے کو تیار ہوں ہمارے پاس موجود نہ ہوں، اس وقت تک ہم انہیں ایل این جی نہیں بیچ سکتے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ اس وقت ایل این جی کی قیمت 1100 روپے فی ملین بی بی ٹی یو بنتی ہے لیکن یہی اگر مقامی گیس ہو تو اس کی اوسط قیمت اس سے آدھی ہے لہٰذا پچھلی حکومت نے جو قانون بنایا اس کا ایک خاص مطلب ہے جو ہمارے اینکر صاحبان خصوصاً جن کا میں ذکر کر رہا تھا، وہ اس چیز کو جانتے بوجھتے نظرانداز کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اینکر اس ایل این جی کو گاجر مولی سمجھ رہے ہیں کہ میں جا کر بازار سے لے آؤں اور پرسوں میں کسی کو بیچ دوں گا، جو خریدار دگنی قیمت دینے کو تیار ہیں، میں اسی کو بیچ سکتا ہوں، میں اگر ایل این جی فالتو لے آؤں اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوں۔

مزید پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی کا اک کارگو ڈھائی کروڑ ڈالر کا ہے، اگر میرے پاس ایل این جی کے خریداروں کے کنفرم آرڈر نہیں ہیں تو میں ایل این جی لا کر کروں گا کیا؟

ندیم بابر نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے 800 ملین کیوبک فٹ لانگ ٹرم کنٹریکٹ پر لی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے ایل این جی آج لینی ہے تو جب میں پہلے 800 بیچ نہیں لوں گا، میں اگر کوئی اور خریدتا ہوں جو اس 800 سے اوپر ہے تو میں پھر اس مخمصے میں ہوں کہ میں اس فالتو ایل این جی کا کیا کروں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے ستمبر 2018 سے اس مہینے کے آخر تک ان 27 مہینوں میں 35 کارگو ہم نے منگوائے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان 27 مہینوں میں سے 9 مہینے ایسے تھے کہ جب ہماری ایل این جی کی مجموعی فروخت 800 یا اس سے تھوڑی کم تھی، اگر میں فالتو ایل این جی لے آؤں تو میں ان ایک تہائی مہینوں میں کیا کروں گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا میں 1100 کی منگوا کر ڈیڑھ سو کی بیچوں، میں کیا کروں اس کا، گردشی قرضے پیدا کروں، ان دو چیزوں کے بعد پچھلی حکومت نے قانوناً میرے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا، ان دو چیزوں کو تناظر میں رکھیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نئے معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کیے، قیمتیں تو بہت گر گئی تھیں، آپ پچھلی حکومت کو مہنگی ایل این جی لانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو آپ نے کیا کیا؟

یہ بھی پڑھیں: برآمدی شبعوں کیلئے بجلی، گیس کی سبسڈی منظور

ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ ہم نے کیا کیا ہے، یہ 35 کارگو جو ستمبر 2018 سے لے کر نومبر 2020 تک ہم لے کر آئے ان کی اوسط قیمت 10.4فیصد آف برینٹ ہے، اب آپ اس کا خود موازنہ کر لیں کہ جو ہم طویل المدتی معاہدے کے تحت ہم خرید رہے ہیں، قطر کا معاہدہ 13.37فیصد پر ہے، یہ حقائق ہیں، تیز بولنے یا ڈھیر سارے نمبر جلدی سے کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدلتی، کنفیوژن تو پیدا ہو سکتی ہے، شاید ایک تاثر بھی پیدا ہو جائے، کچھ لوگ شاید اس پر یقین بھی کرنا شروع کردیں لیکن حقائق نہیں بدلتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ نے دسمبر میں بہت مہنگے کارگو لے لیے، ابھی دسمبر شروع نہیں ہوا اور اگر میں اسے شامل بھی کر لوں تو نمبر 11.3فیصد آجاتا ہے، میں پھر بھی ان معاہدوں سے 20 فیصد سستا ہوں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر گرمیوں میں ایل این جی اتنی سستی تھی تو آپ نے ڈھیر ساری کیوں نہیں خرید لی تو اس کا آسان جواب ہے کہ جب گرمیوں میں قیمت برینٹ کا 10فیصد چل رہی تھی تو یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ بیچنے والے احمق ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ سردیوں میں قیمت بڑھ جاتی ہے یا ہم اتنے ناسمجھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ پچھلے 10سال کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں، ٹرینڈ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ سال کے کچھ مہینوں میں قیمت کم ہوتی ہے اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے، یہ ایک قدرتی امر ہے لہٰذا یہ تاثر درست نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعٰیل پر فرد جرم عائد

ندیم بابر نے کہا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے تو دو ٹرمینل لگا دیے اس حکومت نے ابھی تک کوئی ٹرمینل نہیں لگایا تو کیوں نہیں لگایا، جو دو ٹرمینل لگے ہوئے ہیں ان کی 100فیصد استعداد کی حکومت نے گارنٹی دی ہوئی ہے اور روزانہ کے 5 لاکھ ڈالر استعداد کی مد میں مختص رقم دینی پڑتی ہے، چاہے وہ چلے یا نہ چلے، یعنی سال کے 17 کروڑ ڈالر دینے پڑتے ہیں، پھر چاہے وہ جتنا بھی چلیں اور ٹرمینل پورا سال فُل نہیں چلتے لہٰذا اگر ٹرمینل فُل نہیں چلتے کہ حکومت دو تین اور ٹرمینل اسی طرز پر لگا دے اس کا مطلب ہم حکومت پر مزید معاشی بوجھ بڑھا دیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس حکومت نے نجی شعبے کو کہا کہ جو ٹرمینل لگانا چاہتا ہے وہ لگائے، حکومت ان سے اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرے گی، حکومت اس کو ترسیل کی صلاحیت فراہم کرے گی تاکہ وہ خود اپنی ایل این جی لائیں اور خود بیچیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرز پر دو کمپنیاں بالکل اسٹیج پر پہنچ چکی ہیں، ایک کمپنی نے کہا ہے کہ وہ جنوری میں تعمیرات شروع کررہے ہیں اور دوسری اس سے چند ماہ بعد شروع کردے گی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ اس حکومت نے کہا کہ ہم ٹرمینل مزید لگوانا چاہتے ہیں، ہم بطور حکومت یہ رسک نہیں لیں گے کہ روزانہ 5 لاکھ ڈالر دیتے رہیں اور وہ کتنا استعمال ہو رہا ہے اس کا رسک بھی ہم اٹھائیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی پی پیز پر رپورٹ کے اجرا کے بعد آر ایل این جی پاور پلانٹس کے خریداروں کا بولی لگانے سے انکار

انہوں نے کہا کہ ایک اور سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کراچی الیکٹرک کو گرمیوں میں تیل نہیں ملا یا اس کو ایل این جی دے دی گئی، یہ کیوں ہوا؟ آپ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی الیکٹرک کا کئی سالوں سے اور اس حکومت سے پہلے سے مسئلہ چل رہا ہے، ان کے بجلی اور گیس کے کنٹریکٹ بہت عرصے سے ایکسپائر ہو چکے ہیں اور کراچی کو بھی ہر ممکن حد تک سپورٹ دے رہے ہیں کیونکہ یہاں کے باسی بھی پاکستان کے شہری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب گرمیوں میں انہیں ایندھن کی کمی ہوئی، تو ہم نے انہیں ایل این جی بھی دی حالانکہ ہمارا ان سے ایل این جی کا کوئی معاہدہ نہیں تھا، پھر یہ کہا جاتا کہ ان کو تیل نہیں دیا گیا تو حکومت کی ان کو تیل دینے کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، وہ کسی کے ذریعے بھی تیل لے سکتے ہیں، حکومت سے انہوں نے کبھی بھی تیل نہیں لیا۔

ندیم بابر نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سال فیول آئل پر آر ایف او پر جنریشن کیوں کی گئی تو دراصل دو سال پہلے بجلی کی کُل پیداوار کا 21 فیصد آر ایف او پر تھا، اس سال 11 مہینے ہو گئے ہیں، کُل پیداوار کا 3.9 فیصد فرنس آئل پر ہے اور اب اسے صرف ایمرجنسی اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے، جب بات کی جاتی ہے تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہم فرنس آئل کا استعمال 21 فیصد سے کم کرکے 3.9 فیصد پر لائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ہفتے ہم نے روس سے مفاہمتی یادداشت کو ازسرنو مرتب کرتے ہوئے دستخط کیے ہیں تاکہ نارتھ ساؤتھ پائپ لائن بنا سکیں، ہم نے اس پائپ لائن کا حجم بھی بڑھا دیا ہے اور اب یہ 1.6 بی سی ایف گیس لے کر چلے گا، ہمیں اُمید ہے کہ فروری مارچ میں اس پر کام شروع کردیں گے۔

مزید پڑھیں: سی این جی اسٹیشنز کو جلد نئے لائسنس جاری کیے جائیں گے

معاون خصوصی نے دعویٰ کیا کہ اگلے دو تین سالوں میں ہم پائپ لائن کے شعبے میں اہم اصلاحات لا رہے ہیں اور کابینہ نے پیٹرولیم ڈویژن کو یہی ہدایت دی ہے کہ ایک مکمل اصلاحات پروگرام لے کر آئیں۔

حکومتی اراکین نے آئندہ آنے والے سالوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا عندیہ بھی دیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اگلے مہینے گردشی قرضہ صفر نہیں ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جس منصوبے پر بات ہوئی تھی اس کے تحت جنوری سے ٹیرف بڑھنا تھا لیکن اس وقت مہنگائی زیادہ تھی اور پھر کووڈ آگیا تو وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ ٹیرف نہ بڑھایا جائے اور جو ٹیرف نہیں بڑھایا گیا اس کی مالیت 270 ارب روپے بنتی ہے۔

گردشی قرضوں کے حوالے سے شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں جو ہم نے مہنگے معاہدے کیے اس کے گرداب سے ہم باہر نہیں نکل پائے کیونکہ ان معاہدوں پر یکطرفہ طور پر کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو معاہدے کیے گئے اگر ان میں ٹیرف کا تعین صحیح وقت پر ہو جاتا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی وقت ہو جاتا تو گردشی قرضہ اتنا زیادہ نہ آتا، ماضی کی حکومتوں میں سیاسی فائدے کے لیے ٹیرف نہیں بڑھایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر دسمبر تک بھی گردشی قرضہ صفر رہتا ہے تو حکومت کو اس کے اثرعات صارفین کو منتقل کرنا پڑیں گے جہاں جنوری میں وزیر اعظم نے بڑھتی مہنگائی اور پھر کورونا کی وجہ سے ٹیرف میں اضافے سے روک دیا تھا۔

شبلی فراز نے کہا کہ عوام نے بجلی و گیس کے نرخ نہ بڑھنے سے فائدہ اٹھایا جہاں اس کے برعکس مسلم لیگ(ن) نے سیاسی فوائد کے حصول کے لیے نرخ نہیں بڑھائے تھے جس سے ریگولیترز کے مطالبے کے باوجود 170ارب روپے کی قیمت کا اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ گیس کے شعبے میں 192ارب کے گردشی قرضے چھوڑ دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حکومتوں کے لیے یوٹیلٹی نرخوں میں اضافہ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے اور حکومت بھی اسی مخمصے کا شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے مہنگے معاہدوں کی وجہ سے جو بجلی کا دلدل چھوڑا ہے، موجودہ حکومت اس کے گرداب سے نکل نہیں پا رہی۔

ندیم بابر نے کہا کہ عوام سے پیسوں کی مکمل ریکوری کی وصولی کی ایک وجہ غیرموثر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی وجہ سے پڑنے والا دباؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ہر چیز اک طرف کردیں تو غیرموثر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی وجہ سے گردشی قرضوں کی مد میں ہر مہینے 9 سے 14ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں