آئندہ 5 سال کی معاشی شرح نمو زیادہ حوصلہ افزا نہیں

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
افرادی قوت جذب کرنے کے لیے 7سے8 فیصد معاشی شرح نمو کی ضرورت ہے— السٹریشن : ڈان
افرادی قوت جذب کرنے کے لیے 7سے8 فیصد معاشی شرح نمو کی ضرورت ہے— السٹریشن : ڈان

اسلام آباد: خطے میں آبادی میں سب سے زیادہ شرح نمو کے ساتھ پاکستان پہلے ہی دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن کم از کم اگلے چار سے پانچ سال تک معاشی ترقی کا منظرنامہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کی جانب سے جاری کردہ آبادی کی صورتحال کے تجزیئے کی ایک سمری میں کہا گیا کہ پاکستان کو اگلے 30 سالوں میں مزدوری کے شعبے میں آنے والی افرادی قوت کو جذب کرنے کے لیے 7 سے 8 فیصد کی اعلیٰ معاشی شرح نمو کی ضرورت ہے جس کو بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے حتمی شکل دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے'

اس موقع پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے آبادی میں اضافے کی روک تھام اور ماں اور بچے کی صحت، غذائی قلت اور اس کی وجہ سے ہونے والے نمو جیسے دیگر امور کو دور کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی طریقہ اپنایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حکمت عملی میں معاشی شمولیت کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ مواصلات کے مختلف ذرائع اور علمائے کرام سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کو شامل کر کے پیدائش میں فرق کی اہمیت کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے گا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بار بار حمل سے بچے کی نشونما رک جاتی ہے اور ماں کی صحت متاثر ہوتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو پیدائش میں فاصلے اور مانع حمل کے استعمال سے متعلق تعلیم دینا ضروری ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسانی سرمائے کے عوامل کو دیکھا جائے تو آبادیاتی اعدادوشمار کے ممکنہ فائدہ اٹھانے میں معاونت نہیں کر رہے، معاشرتی اور معاشی مواقع میں ساختی عدم مساوات آبادیاتی منتقلی کو شکل دیتے ہیں اور آبادی کے نتائج کو متاثر کرتے ہیں جو مقامی مانع حمل کے پھیلاؤ اور اعلیٰ زرخیزی کی سطح کے ساتھ ساتھ زچگی اور بچوں کی صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘پاکستان کی آبادی میں 2050 تک 50 فیصد اضافہ ہوجائے گا ‘

رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان کی سنہ 2008 کے بعد سے کم درمیانی آمدنی والے ملک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے اور اس کی فی کس جی ڈی پی ایک ہزار 565 ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو آبادیاتی اور کچھ معاشرتی اور صحت کے اشاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کمتر ترقی یافتہ ممالک سے مطابقت رکھتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ پاکستان میں آبادی کی صورتحال کے حالیہ جائزے نے سالانہ آبادی میں موجودہ اعلیٰ سطح کے اضافے کی نشاندہی کی ہے جو 1998-2017 کی مدت کے لیے 2.4 فیصد تھی۔

آبادی 1951 سے 2017 کے درمیان چھ گنا بڑھ کر 3 کروڑ 40 لاکھ سے 20 لاکھ 80 ہزار ہو گئی اور 2030 تک یہ 26 کروڑ 30 لاکھ اور 2050 تک 38 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، یعنی اگر آبادی کی شرح روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2017 سے 2050 کے دوران آبادی میں 84 فیصد اضافہ ہو گا۔

اس تشخیص سے ظاہر ہوا ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر زرخیزی میں سست کمی کی وجہ سے آبادی کی منتقلی کے عمل کی سست رفتار کی تصدیق ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟

2017 میں تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ شادی شدہ جوڑوں میں سے تقریباً 89 لاکھ نے جدید طریقوں کا استعمال کیا اور ان میں سے 49 لاکھ کو یہ طریقے گزشتہ ایک سال کے دوران موصول ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدمات کے نقوش بہت کم ہیں اور مذکورہ سال میں خدمات کے 15 فیصد استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے جو زچگی، نوزائیدہ، کمسن بچوں، بچوں کی صحت اور بقا کے لیے اہم ہے اور اس کے خواتین کی ایجنسی، تعلیم اور مزدوری کی افرادی قوت کے ساتھ ساتھ ماحول اور معیار زندگی پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اگرچہ کچھ جنسی اور تولیدی صحت کے شعبوں میں قابل ذکر ترقی ہوئی ہے۔

آبادیاتی منتقلی کی سست شروعات، مستحکم اعلیٰ زرخیزی کی سطح اور کم مانع حمل کی تشہیر آبادیاتی فوائد کے ممکنہ استعمال کو واضح طور پر مؤخر کررہی ہے، زرخیزی میں مستحکم کمی معیشت کو ایک موقع کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس کی بدولت ملازمت کرنے والے 15-64 سال کی آبادی کے حجم میں اضافہ اور اسی دوران 15 سال سے کم عمر افراد کی آبادی کی شرح میں بتدریج کمی واقع ہوتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نہ صرف کم معاشی نمو کا شکار ہے بلکہ اس طرح کی ترقی اور اس سے وابستہ مواقع، تعلیم، روزگار اور آمدنی سے حاصل ہونے والی ناجائز تقسیم کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، یہ بات خاص طور پر خواتین کی آبادی کے لیے کہنا درست ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری نتائج: کراچی کی آبادی میں 60، لاہور میں 116 فیصد اضافہ

تاہم ملک کی معاشی پروفائل نے اس بات کا اشارہ کیا کہ معاشی نمو بنیادی طور پر کھپت سے کی جاتی ہے جو درمیانی اور اعلیٰ مہارتوں کے لیے روزگار کے مناسب مواقع پیدا نہیں کررہی تھی اور مختلف خصوصیات کے ذریعے معاشرتی اخراج کو بہت زیادہ مروج پایا گیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ثقافتی طور پر اس کی جڑیں پائی جاتی ہیں اور معاشی تفریق اس کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اگرچہ خواتین لیبر فورس میں شرکت کی شرح 1990 میں 13.7 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 20.3 فیصد ہو گئی ہے لیکن یہ اب بھی بہت کم ہے، خواتین کی حیثیت ایک چیلنج والا مسئلہ بنی ہوئی ہے اور خواتین کی صحت اور بقا، تعلیم کا حصول اور یکساں معاشی شراکت اور مواقع جیسے اشاریوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ملک دنیا کے نچلے ممالک میں سے ایک ہے، مزید برآں دنیا کے دیگر ملکوں میں خواتین اور بچوں میں غذائی قلت، غذائیت کی کمی اور بچپن میں غذائیت کی کمی بلند ترین شرح پر نظر آ رہی ہے اور صرف 15 فیصد بچے قابل قبول غذا کھاتے ہیں۔

ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں غربت کی وجہ سے غذائی توانائی کی کھپت میں سامنا کرنے والی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔

2019 میں پاکستان کی 24 فیصد آبادی کو غذائی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے خوراک کی ناکافی مقدار موجود تھی، آبادی صورتحال کے تجزیے نے مشورہ دیا ہے کہ عدم مساوات اور غربت کے بارے میں بحث و مباحثے کو صرف آمدنی تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے صحت، تعلیم اور بے روزگاری تک رسائی پر توجہ دینے کے لیے بھی توسیع کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں نسبتا کمزور صنعتی اور مینوفیکچرنگ سیکٹر ہے جس میں مناسب ملازمتوں میں نئے آنے والوں کو جذب کرنے کی بہت کم صلاحیت ہے، سروس سیکٹر کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ’ملک کی 29 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے‘

وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں آبادی پر قابو پانے میں بہت زیادہ تیزی لانی چاہیے تھی جس کی وجہ سے پاکستان خطے کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا اور آبادی کی شرح نمو سب سے آگے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ماؤں، بچوں اور کنبوں کی صحت اور پاکستان کی خوشحالی کے لیے آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کے سلسلے میں اپنے وسائل پر آنے والے بوجھ کو کم کرنے کی غرض سے کوششیں کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین محمد جہانزیب خان نے کہا کہ پاکستان کی اب زرخیزی کی شرح 3.5 فیصد ہے جہاں خاندانی منصوبہ بندی کی 17.3 فیصد ضرورت ہے جہاں اس ہدف کو اب تک حاصل نہیں یا جا سکا اور مانع حمل حمل کی شرح 34.2 فیصد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں