اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے میں پاکستان کو بھارتی حکومت سے ایک مرتبہ پھر رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔

کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس پر بھارت کا بے بنیاد بیان مسترد کردیا

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے معلوم کریں کہ وہ پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے بتایا کہ اٹارنی جنرل آج سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک بھارتی قیدی اسمٰعیل کے کیس میں کیا ہوا؟ بغیر قانون کے کسی کو حراست میں تو نہیں رکھا جا سکتا، پھر آپ اسے رہا کر کے واپس بھیجیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام نے این او سی جاری کردیا ہے۔

انہوں نے عدالت نے بتایا کہ جنوری کو باقی رہنے والے بھارتی قیدی کو بھی رہا کردیا جائے گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تاریخ کیوں؟ جب رہا کرنا ہے تو رہا کر دیں۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے بتایا کہ کچھ سیکیورٹی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے تاریخ رکھی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بھارتی حکومت کلبھوشن یادیو کے کیس میں دلچسپی نہیں رکھتی؟

طیب شاہ نے بتایا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ہیں، اٹارنی جنرل ہی اس معاملے کو دیکھیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کی وزارت قانون کی درخواست پر سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 5 دسمبر کو پاکستان نے گرفتار بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کیس سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ امور کے بے بنیاد اور من گھڑت بیان کو مسترد کردیا تھا۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘بھارت کی وزارت خارجہ امور کی جانب سے کمانڈر کلبھوشن یادیو سے متعلق جاری قانونی سماعتوں کے حوالے سے غلط اور گمراہ کن بیان کو پاکستان یکسر مسترد کرتا ہے’۔

بیان کے مطابق ‘بھارتی ہائی کمیشن کے اپنے وکیل کے بیان سے یہ واضح ہے کہ بھارتی حکومت، کلبھوشن یادیو کیس کے قانونی عمل سے بھاگنا چاہتی ہے’۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعد ازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بےقصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا، لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں