لاہور ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو کھوکھر پیلس گرانے سے روک دیا

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2021
عدالت نے ضلعی انتطامیہ کو کھوکھر پیلس مسمار کرنے سے روک دیا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
عدالت نے ضلعی انتطامیہ کو کھوکھر پیلس مسمار کرنے سے روک دیا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ضلعی انتظامیہ کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما سیفل الملوک کھوکھر کی رہائش گاہ 'کھوکھر پیلس' کو مزید گرانے سے روک دیا اور دونوں فریقین کو تنازع کے حل کے لیے سول عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے محل کو بلڈوز کرنے سے متعلق لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت کو بھی معطل کردیا تاہم کھوکھر برادران کو سول عدالت کے فیصلے تک منہدم شدہ پراپرٹی کی تشکیل نو سے روک دیا، اپوزیشن پارٹی کے رہنما نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: زمین پر قبضے کا الزام: مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر گرفتار

قبل ازیں درخواست گزار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ احسن بھون نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سول عدالت کے منظور کردہ حکم امتناع کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پراپرٹی کو منہدم کردیا اور وہ بھی بغیر کسی نوٹس جاری کیے، انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو سیاسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ ایک سول عدالت کے حکم امتناع کا احترام اور اس کی تعمیل کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے ایک سرکاری افسر سے پوچھا کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ حکومت نے حکم امتناع کے باوجود جائیداد مسمار کردی؟'

حکومت کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آصف بھٹی نے کہا کہ درخواست گزار پر پیشگی نوٹس دیا گیا تھا اور آپریشن سے قبل جائیداد پر چسپاں کردیا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ درخواست گزار سمیت مجموعی طور پر 134 غیر قانونی قبضہ کاروں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا محکمہ اینٹی کرپشن کو کھوکھر برادران کےخلاف کارروائی کاحکم

انہوں نے درخواست کو برقرار رکھنے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ درخواست گزار نے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔

چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ظاہر ہے کہ زیر التوا جائیداد کو ایل ڈی اے کے ضمنی قوانین کی خلاف ورزی پر بلڈوز کیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سول عدالت نے حکومت کی ہدایت کو پہلے ہی معطل کردیا تھا جس کے تحت کھوکھر محل کو مسمار دیا گیا تھا۔

وکیل احسن بھون نے کہا کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے درخواست گزار کو جائیداد کا قانونی مالک قرار دیا تھا، انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے کھوکھر محل سے ملحقہ جائیداد کو قانونی طور پر خریدا تھا۔

اس پر چیف جسٹس خان نے وکیل سے پوچھا کہ کون طاقتور شخص کی پیش کش سے انکار کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کھوکھر برادران کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ طاقتور شخص کا ہمسایہ ہونا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی اور حکومت اور درخواست گزار کو ہدایت دی کہ وہ تنازع سول عدالت میں نمٹائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں