6 دہائیوں پرانا 'آسیب زدہ' معمہ حل کرلیا گیا

30 جنوری 2021
6 دہائیوں سے یہ واقعہ ایک اسرار بنا ہوا ہے — کریٹیو کامنز فوٹو
6 دہائیوں سے یہ واقعہ ایک اسرار بنا ہوا ہے — کریٹیو کامنز فوٹو

6 دہائیوں سے زائد عرصے سے کوہ پیمائی کا ایک واقعہ لوگوں کے ذہنوں میں کسی آسیب زدہ کہانی کی طرح چپکا ہوا ہے۔

اس کو اکثر بچوں کو خوفناک کہانی کے طور پر بھی سنایا جاتا ہے مگر یہ ایک حقیقی اور بہت پراسرار واقعہ ہے، جو سازشی خیالات رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کے ذہنوں کو بھی گھما رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر

روس کے کوہ اورال میں پیش آنے والے واقعے کو ڈیالٹو پاس واقعے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

1959 کے موسم سرما میں کوہ اروال کے اس مقام پر 9 جوان کوہ پیما پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد سے یہ سائنسدانوں کو دنگ کررہا ہے اور اسے خلائی مخلوق سے لے کر جوہری دھماکے کی آزمائش سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

مگر اب سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ معمہ حل کرلیا ہے۔

جریدے جرنل کمیونیکشن ارتھ اینڈ انوائرمنٹ میں شائع تحقیق میں ان تجربہ کار کوہ پیماؤں کی موت کی وضاحت کی گئی، جن کی منجمد لاشیں کوہ اورال میں مختلف جگہوں سے دریافت کی گئی تھیں۔

ہوا کیا تھا؟

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

جنوری 1959 میں روس کے تجربہ کار 9 کوہ پیماؤں کی ٹیم کوہ اروال پر ٹریکنگ کررہی تھی، جہاں وہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔

یہ بھی جانیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟

اس مقام سے کوہ پیماؤں کی ڈائریز اور فلم دریافت ہوئی، جس سے تصدیق ہوئی کہ اس ٹیم نے ڈیڈ ماؤنٹین نامی مقام پر کیمپ لگایا تھا۔

تاہم آدھی رات کو کچھ ایسا ہوا جس کے باعث وہ افراد خیمے سے باہر نکلے اور کوہ اورال کے چاروں طرف بھاگنے لگے، شدید سردی اور برف کے باوجود ان کے جسموں پر مناسب لباس نہیں تھا۔

یہ اسرار بھی پڑھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا

کئی ہفتوں بعد امدادی ٹیم نے ان کی لاشوں کو کوہ اروال کے مختلف مقامات پر دریافت کیا، جن میں سے 6 کی موت ہایپوتھر سیا (بہت کم درجہ حرارت کے نتیجے میں) کے باعث ہوئی جبکہ باقی 3 کی ہلاکت شدید جسمانی نقصان کے باعث ہوئی۔

ان کے جسم کے اعضا غائب تھے، جیسے ایک کی آنکھیں، دوسرے کی زبان جبکہ ان تینوں کی کھوپڑیوں اور سینے کے ہڈیوں کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

مگر اس میں اسرار کیا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایسے شواہد نہیں ملے کہ کیوں یا کیسے ان کے ساتھ ایسا ہوا۔

اس وقت تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کسی نامعلوم مگر طاقتور قدرتی عنصر نے کوہ پیماؤں کو خیمے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے

کچھ حلقوں کے مطابق برفانی انسان کے حملے یا دیگر کی وجہ سے ایسا ہوا، مگر ان کی اموات کی وضاحت کرنے والی ٹھوس وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔

کم از کم اب تک تو نہیں۔

نئی تحقیق

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

اس نئی تحقیق میں ان کوہ پیماؤں کی موت کی وجہ ایک چھوٹے مگر طاقتور ایوالاانچ کو قرار دیا گیا ہے، جس کے لیے شواہد بھی پیش کیے گئے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح کا خیال سامنے آیا ہے، درحقیقت اس سے پہلے بھی ایوالانچ کا خیال پیش کیا گیا مگر کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں : وہ خاتون جو ہر 24 گھنٹے بعد 26 سال پہلے کے 'عہد' میں پہنچ جاتی ہے

2019 میں روسی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بھی نتیجہ نکالا تھا کہ ایک ایوالانچ اس واقعے کی وجہ بنا، مگر اس وقت خیال کو سپورٹ کرنے والا ڈیٹا سامنے نہیں آیا تھا۔

درحقیقت واقعے کے بعد جائے حادثہ پر کسی قسم کے ایوالانچ (معمولی ہی سہی) کے آثار نہیں ملے تھے۔

تاہم سوئٹزرلینڈ کے اسنو ایوانچ سمولیشن لیبارٹری کی ٹیم نے تجزیاتی ماڈلز، سمولیشنز اور ڈزنی انیمیشن اسٹوڈیو کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وضاحت کی کہ کس طرح ایک ایوا لانچ اپنے پیچھے شواہد چھوڑے بغیر تباہی مچاسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایوالانچ اتنا چھوٹا ہوسکتا ہے جس میں برف ایک ٹھوس ڈھلان کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

ایسی صورتحال میں وقت اور برفباری کے ساتھ تمام تر ملبہ اوجھل ہوجتا ہے مگر ہائیکرز کے لیے خطرہ ضرور ہوتا ہے۔

ایک اور دلچسپ داستان پڑھیں : 8 چہروں والا وہ شخص جس نے لاکھوں ذہن گھما کر رکھ دیئے

مگر اس سے یہ وضاحت نہیں ہوسکی کہ 3 کوہ پیماؤں کے جسموں کو نقصان کیسے پہنچا۔

تو اس سوال کے جواب کے لیے تحقیقی ٹیم نے ڈزنی کی فلم فروزن کو دیکھا اور انیمیشن ماڈلز کے سمولیشن ٹولز کے ذریعے تجزیہ کیا کہ ایوالانچ سے جسموں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس سمولیشن کے ذریعے تحقیقی ٹیم نے تعین کیا کہ ایوالانچ ااتنا طاقتور ہوسکتا ہے کہ کھوپڑیوں اور سینے کی ہڈیوں کو توڑ سکے۔

مگر اس کے بعد کیا ہوا اس کے حوالے سے شواہد نہ ہونے کے برابر تھے، کیونکہ وہ سب کوہ پیما خیمے سے باہر نکل کر مختلف حصوں کی جانب بھاگ گئے تھے۔

مگر محققین کا خیال یہ ہے کہ جب یہ افراد ایوالانچ سے بچ کر بھاگنے اور اپنے زخمی ساتھیوں کی مدد کی کوشش کررہے تھے، ان کے زخموں اور شدید سردی ان کے لیے جان لیوا عناصر ثابت ہوئے۔

اگرچہ تحقیق میں قابل قبول وضاحت پیش کی گئی ہے مگر اب بھی بہت سے سوالات کے جواب سامنے نہیں آئے۔

تو ان سوالات کے جوابات تک سازشی خیالات بدستور سامنے آتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں