اوپر موجود تصویر دیکھیں، شاید آپ نے اسے پہلے بھی دیکھا ہو۔

اگر نہیں بھی دیکھا تو جان لیں کہ لگ بھگ 5 دہائیوں سے یہ تصویر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا کے اہم ترین حصے کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں : جیل توڑ کر فرار ہونے والے قیدیوں کا وہ واقعہ جو اب بھی ذہن گھما دیتا ہے

وہ حصہ ہے جے پی آئی جی (جے پیگ)۔

جی ہاں واقعی جریدے پلے بوائے میں نومبر 1972 میں شائع ہونے والی تصویر نے کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔

اس تصویر کے نتیجے میں نومبر 1971 میں اس میگزین کی ریکارڈ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور آج تک ایک ماہ میں اتنی کاپیاں پھر فروخت نہیں ہوسکیں۔

سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی ماڈل لینا وڈربرگ کی اس تصویر نے اس زمانے کے کمپیوٹر ماہرین کی بہت بڑی مشکل کو حل کردیا تھا۔

جب یہ جریدہ شائع ہوا تو اس کے 6 ماہ بعد سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے چند کمپیوٹر انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے طالبلموں کو ایک عجیب مشکل کا سامنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر

وہ اپنے نئے کمپریشن الگورتھم کے پراجیکٹ پر کام کررہے تھے، جس کا مقصد تصاویر کی فائلز کے حجم کو ڈیوائسز کے لیے قابل قبول بنانا تھا۔

اس مقصد کے لیے وہ اپنے کمپیوٹر میں اسکین کرکے ایک تصویر اپ لوڈ کرنے کوشش کررہے تھے مگر اس کے نتیجے میں خوش نہیں تھے۔

انہوں نے یونیورسٹی کی تمام اسٹاک تصاویر کو استعمال کرکے دیکھا، جن کو 1960 کی دہائی کے اوائل سے ٹیلی ویژن کے ٹیسٹ پیٹرن کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔

جب وہ کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کررہے تھے تو یونیورسٹی کے عملے کا ایک فرد میگزین کے نومبر کے شمارے کو لے کر آیا۔

یہ بھی جانیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟

اسے دیکھ کر طالبعلموں کو محسوس ہوا کہ ان کی مشکل حل ہوگئی ہے۔

طالبعلموں نے تصویر سے صرف چہرے کو لیا جو ان کے پراجیکٹ کے لیے آؤٹ پٹ ڈائنامک رینج کے لیے مثالی محسوس ہورہا تھا۔

اس کے بعد چہرے کو اسکین کیا اور اپنے کمپیوٹر پر کامیابی سے اپ لوڈ کرلیا اور اس طرح دنیا کی پہلی جے پیگ تصویر کی آمد ہوئی۔

انہوں نے تصویر کو اینالاگ ٹو ڈیجیٹل کنورٹرز کے سیٹس سے گزارا اور 512 لائن اسکین کو اپنے ہیولیٹ پیکارڈ 2100 میں محفوظ کرلیا۔

یہ اسرار بھی پڑھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا

اس زمانے کے انٹرنیٹ کے ورژن آراپینٹ کو استعمال کرکے ان طالبعلموں نے متعدد یونیورسٹیوں کے کمپیوٹر انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹس کو وہ تصویر منتقل کی۔

وہ تصویر جو اب لینا (Lena) یا لیننا (Lenna) کے نام سے جاتی ہے اور دہائیوں سے کمپیوٹر سائنس اسٹینڈرڈ بنی ہوئی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جے پیگ فارمیٹ کے نتیجے میں انٹرنیٹ پر کھربوں تصاویر بہت کم ڈیٹا کے ساتھ اپ لوڈ کرنے کا موقع ملا۔

اس تصویر کے فارمیٹ کو کھربوں بار نقل اور ری اینالائزڈ کیا گیا ہے اور موجودہ عہد کی ضروریات کے مطابق ڈھالا گیا۔

درحقیقت متعدد کے خیال میں تو یہ تصویر حقیقی نہیں تھی بلکہ ان طالبعلموں نے کسی فرضی شخصیت کو ماڈل بنایا تھا۔

اسی ماڈل کی تصاویر دیکھنے کے لیے یونیورسٹیوں کے طالبعلموں اور کمپیوٹر سائنس کے ماہرین نے نومبر 1972 کے میگزین کے شماروں کو ریکارڈ تعداد میں خریدا تھا۔

یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے

تاہم یہ حقیقی خاتون تھی جو اب سوئیڈن میں مقیم ہیں اور 68 یا 69 سال کی ہوچکی ہیں۔

ان کا بیٹا بھی ٹیکنالوجی کی دنیا کا حصہ ہے اور اکثر اپنی ماں کے سامنے وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کس طرح ان کی تصویر کو استعمال کیا گیا۔

خاتون کے مطابق میرا بیٹا پکسلز کے ساتھ کام کرتا ہے، جس کی باتیں میں سمجھ نہیں پاتیں، مگر مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ اچھا کام کیا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں