سینیٹ انتخابات: پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا فیصلہ برقرار

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2021
سماعت میں دلائل دیتے ہوئے پرویز رشید کے وکیل نے کہا کہ پرویز رشید 2010 سے سینیٹر ہیں —فائل فوٹو: ڈان نیوز
سماعت میں دلائل دیتے ہوئے پرویز رشید کے وکیل نے کہا کہ پرویز رشید 2010 سے سینیٹر ہیں —فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل الیکشن ٹریبونل نے ریٹرننگ افسر کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے رہنما مسلم لیگ (ن) پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے، اس فیصلے کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسر نے سینیٹ انتخاب کے لیے پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی پر لگائے گئے اعتراضات منظور کرتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے جس کے خلاف پرویز رشید نے الیکشن ٹریبونل میں اپیل دائر کی تھی۔

جسٹس شاہد وحید نے ریٹرنگ آفیسر کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف پرویز رشید کی اپیل پر سماعت کی جس میں درخواست گزار بھی پیش ہوئے، جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا پنجاب ہاؤس اور الیکشن کمیشن کا ریکارڈ آ گیا ہے؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ تمام ریکارڈ آچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کیلئے کاغذات نامزدگی مسترد، پرویز رشید نے ریٹرننگ افسر کا اقدام چیلنج کردیا

سماعت کے دوران کنٹرولر پنجاب ہاؤس نے پرویز رشید کی پنجاب ہاؤس میں رہائش سے متعلق ریکارڈ اور پنجاب ہاؤس اسلام آباد کے آڈٹ کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی، کنٹرولر پنجاب ہاؤس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پرویز رشید کو ڈی ایچ اے رہائش گاہ پر واجبات کے لیے نوٹس بھجوایا گیا تھا۔

سماعت میں دلائل دیتے ہوئے پرویز رشید کے وکیل نے کہا کہ پرویز رشید 2010 سے سینیٹر ہیں، ان کے مؤکل پر واجبات کی عدم ادائیگی کا اعتراض لگایا گیا جبکہ انہیں واجبات کی ادائیگی کے لیے نوٹس موصول نہیں ہوا۔

وکیل نے کہا کہ اسکروٹنی کے دوران پرویز رشید کو پنجاب ہاؤس کے واجبات کے لیے نوٹس دیا گیا، جس پر پرویز رشید نے ادھار رقم لے کر 95 لاکھ روپے اکٹھے کیے لیکن یہ رقم حکومت نے وصول نہیں کی۔

وکیل نے کہا کہ پرویز رشید اب بھی تمام واجبات ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، اس سے قبل ریٹرنگ آفیسر کو واجبات کی ادائیگی کے لیے دو مرتبہ درخواست دی لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات: رہنما مسلم لیگ (ن) پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد

وکیل نے مزید کہا کہ پنجاب ہاؤس کا ریکارڈ آچکا ہے عدالت چیک کر لے پرویز رشید پنجاب ہاؤس میں نہیں رہے، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ پرویز رشید نے اپنی اپیل میں کہیں نہیں کہا کہ وہ پنجاب ہاؤس میں نہیں رہے۔

وکیل پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سیاسی انتقام کھل کر سامنے آچکا ہے اور سپریم کورٹ بھی اپنے فیصلوں میں سیاسی انتقام کے بارے میں لکھ چکی ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس سے پہلے بھی پرویز رشید نے سینیٹ کا الیکشن لڑا تھا اس وقت تو کسی نے واجبات کا اعتراض نہیں کیا ساتھ ہی پرویز رشید کے وکیل نے پاناما کیس کا حوالہ بھی دیا۔

وکیل نے مزید کہا کہ عدالتیں ہمیشہ سے الیکشن لڑنے کی اجازت دیتی ہیں اس کے بعد ہارنے اور جیتنے کا مرحلہ آتا ہے، حکومتی بدنیتی پر مبنی یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ انتخابات: الیکشن ٹریبونل میں پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو کے کاغذات نامزدگی مسترد

پرویز رشید کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعتراض دائر کرنے والے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری واجبات کی ادائیگی کا معاملہ پرویز رشید کے علم میں تھا اس کے باوجود واجبات ادا نہیں کیے گئے۔

وکیل نے یہ بھی کہا کہ جب پرویز رشید پنجاب ہاؤس میں رہے ہی نہیں تو واجبات ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہیں، وکیل کے مطابق پرویز رشید کے پاس کراس چیک ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، ریٹرننگ افسر نے رقم جمع کرانے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا تھا لیکن رقم جمع نہیں کرائی گئی۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ پرویز رشید نے واجبات کہاں جمع کرانے تھے جس پر وکیل اعتراض کنندہ نے بتایا کہ رقم کنٹرولر پنجاب ہاؤس کو جمع کرانی تھی لیکن جمع نہیں کرائی گئی۔

اس پر کمرہ عدالت میں موجود کنٹرولر پنجاب ہاؤس نے کہاکہ میں اس دن ہسپتال میں تھا مجھ سے یا میرے اسٹاف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات کیلئے یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی منظور

مخالف وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ پرویز رشید نے عطاالحق قاسمی کا غلط تقرر کیا جس پر جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اب آپ نیا اعتراض کرنا چاہتے ہیں؟

اس پر وکیل نے کہا کہ بالکل یہ بہت اہم معاملہ ہے اتنی بڑی پوسٹ پر عطا الحق قاسمی کا کیسے تقرر ہوا، ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پرویز رشید نے واجبات جمع کرانے کے لیے کوئی خاطر خواہ تگ و دو نہیں کی۔

بعدازاں دونوں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ بدقسمتی سے الیکشن ایکٹ کو متصادم بنا دیا گیا ہے، خود الیکشن ایکٹ کی کئی شقیں ایک دوسرے سے ہی متصادم ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ پرویز رشید نے اپنی اپیل میں کہیں نہیں لکھا کہ انہوں نے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں روم نہیں لیا، پرویز رشید کو روم چیریٹی کے طور پر نہیں دیا گیا تھا روم کے چارجز ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے یہ بھی کہا کہ عطاالحق قاسمی کیس میں پرویز رشید کے بارے میں فیصلہ آ چکا ہے، جسٹس شاہد وحید نے پرویز رشید کے وکیل سے دریافت کیا کہ عطاالحق قاسمی کیس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

جس پر وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ ریٹرننگ افسر کے سامنے نہیں آیا تھا، پی ٹی وی کیس میں پرویز رشید کا جواب متعلقہ کورٹ میں جمع ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ای سی پی نے سینیٹ کی نامزدگیوں کی جانچ پڑتال مکمل کرلی

چنانچہ الیکشن ٹربیونل نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف پرویز رشید کی دائر کردہ اپیل مسترد کردی۔

میرا جرم کچھ اور ہے، سزا کسی اور چیز کی ملی، پرویز رشید

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز رشید نے کہا کہ میں انصاف مانگنے سے قبل ان کی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں اور میں نے ساری زندگی یہی کام کیا ہے جس کی اب مجھے سزا مل رہی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میرا اصلی جرم کیا ہے، میرا جرم کچھ اور ہے سزا کسی اور چیز پر دلوائی جارہی ہے، میں اس بات کو سمجھتا ہوں لیکن وہ جرم جاری رکھنا چاہتا ہوں، مجھے وہ جرم کرنے میں مزا آتا ہے اور میں اسے جاری رکھوں گا۔

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ 2019 میں ایک جعلی رجسٹر بنایا گیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ ان پر پنجاب ہاؤس کی رقم واجب الادا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹر پیغام میں پرویز رشید کی اپیل خارج ہونے کے فیصلے کو 'فکسڈ میچ' قرار دیا۔

ایک اور پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ پرویز رشید ایک فرد کا نہیں، ایک سوچ، ایک نظریے اور جمہوریت کی ایک روشن علامت کا نام ہے۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ وہ کل بھی پارٹی کا اثاثہ تھے آئندہ بھی نواز شریف کے معتبر ساتھی اور جمہوریت کے جانباز سپاہی کی حیثیت سے پارٹی کا ہی نہیں قومی سیاست کا سرمایہ رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں