برازیل میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کو دوبارہ اس بیماری کا شکار بناسکتی ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

برازیل میں دریافت ہونے والی اس نئی قسم جسے پی 1 کا نام دیا گیا ہے، میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں، جو اسے ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

اس نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کورونا کی دیگر اقسام سے بیمار ہوکر صحتیاب ہونے والے مریضوں کو حاصل ہونے والی مدافعت پی 1 کا مقابلہ نہیں کرپاتی۔

محققین نے وائرس کی دیگر اقسام کو شکست دینے والے افراد کے خون کے پلازما میں موجود اینٹی باڈیز کی آزمائش اس نئی قسم کے خلاف کی۔

آن لائن پری پرنٹ سرور میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ پلازما میں موجود اینٹی باڈیز کی وائرس ناکارہ بنانے والی صلاحیت پی 1 کے خلاف 6 گنا کم ہوگی۔

محققین نے بتایا کہ نئی اقسام کے خلاف وائرس کو ناکارہ بنانے واللی اینٹی باڈیز کی کم صلاحیت اور جزوی مدافعت سے دوبارہ بیماری کا خطرہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس سے قبل مارچ کے آغاز میں جاری ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ پی 1 پرانی اقسام کے مقابلے میں دوگنا زیادہ متعدی ہے۔

برطانیہ اور برازیل کے محققین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ پی 1 نامی کورونا وائرس کی یہ نئی قسم 2.2 گنا زیادہ متعدی اور کووڈ سے پہلے بیمار ہونے والے افراد کی مدافعت کو 61 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی 1 کے نتیجے میں کورونا وائرس کے کیسز برازیل کے شہر میناوس میں اضافہ ہوا اور وہاں 2020 کے اختتام میں وبا کی دوسری لہر سامنے آئی۔

یہ دوسری لہر اس لیے بھی طبی ماہرین کے لیے پریشان کن تھی کیونکہ پہلی لہر کے دوران وہاں بہت زیادہ کیس کے بعد اجتماعی مدافعت کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔

تحقیق کے دوران نومبر 2020 سے جنوری 2021 کے دوران اس شہر میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے والے افراد کے نمونوں سے وائرس کے جینیاتی سیکونس بنائے گئے۔

محققین نے دریافت کیا کہ اس قسم کے نمونوں کی شرح 7 ہفتوں کے دوران صفر سے 87 فیصد تک بڑھ گئی۔

انہوں نے اس نئی قسم میں 17 میوٹیشنز کو شناخت کیا جن میں سے 10 اسپائیک پروٹین کی سطح پر ہوئیں، جس کو یہ وائرس انسانی خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اسپائیک پروٹین میں ہونے والی 3 میوٹیشنز سے اس نئی قسم کو انسانی خلیات کو مؤثر طریقے سے جکڑنے میں مدد ملی، جن میں سے ایک میوٹیشن این 501 وائے برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی۔

اس میوٹیشن سے وائرس کے لیے انسانی خلیات کو جکڑنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے جبکہ ایک اور میوٹیشن ای 484 کے تھی جو وائرس کو موجودہ مدافعتی ردعمل کو پیچھے چھوڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

محققین نے ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر جانچ پڑتال کی کہ اس سے وائرس کی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

انہوں نے ڈیٹا سے ماڈلز تیار کیے جن سے ثابت ہوا کہ کورونا وائرس کی اوریجنل قسم کے ساتھ ساتھ دیگر اقسام کے مقابلے میں 1.4 سے 2.2 گنا زیادہ متعدی ہے۔

اسی طرح یہ قسم پرانی اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی امیونٹی کی شرح کو بھی 25 سے 65 فیصد تک کم کرسکتی ہے، جس سے لوگوں میں دوسری بار کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں