سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کے پولیس حراست میں مبینہ قتل پر احتجاج

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2021
پولیس نے دعویٰ کیا کہ طالب علم متعدد مقدمات میں مطلوب تھا--فوٹو: ٹوئٹر
پولیس نے دعویٰ کیا کہ طالب علم متعدد مقدمات میں مطلوب تھا--فوٹو: ٹوئٹر

سندھ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی لاش مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے اغوا کرنے کے ایک ماہ بعد برآمد ہوئی ہے، جس پر سوشل میڈیا پر احتجاج کیا گیا۔

طالب علم کے ساتھیوں اور سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت کی اور پولیس پر الزام عائد کیا جبکہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ مطلوب جرائم پیشہ تھا اور 'فائرنگ کے تبادلے' میں مارا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ یونیورسٹی میں طالبہ کی ہلاکت پر احتجاج

سندھ یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کی خبر سامنے آتے ہی احتجاج کیا گیا اور حکومت سندھ سے واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم ڈاکٹر عمار علی جان نے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ خبر سن کر افسوس ہوا اور کسی قسم کی خاموشی پر سندھ حکومت کا اس کا حصہ دار تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مقتول عرفان جتوئی کو 10 فروری کو گرفتار کیا گیا تھا اور گزشتہ روز ان کی لاش برآمد ہوئی ہے۔

سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ سکھر پولیس کے مطابق مقتول مبینہ طور پر مطلوب جرائم پیشہ تھا جبکہ سوشل میڈیا پر کئی افراد کہہ رہے ہیں کہ انہیں سندھ یونیورسٹی کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔

انہوں نے صوبائی پولیس سربراہ سے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت انکوائری شروع کریں۔

جبران ناصر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ واقعے کو دیکھے اور 'فائرنگ کے تبادلے پر بیان جاری کرے جس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ میں پولیس مقابلوں کی تاریخ، اختیارات کا ناجائز استعمال سے آلودہ ہے اور اس کے ماہرین حکومت کی ناجائز سرپرستی میں آزاد ہوتے ہیں'۔

'خطرناک ڈکیت'

دوسری جانب سکھر پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فش فارم جھانگڑو تھانے کی حدود میں پولیس سے مقابلے میں نوجوان مارا گیا۔

پولیس کے بیان کے مطابق ان کی شناخت عرفان علی کھروس کے نام سے ہوئی۔

سکھر پولیس کے ترجمان بلال لغاری کا کہنا تھا کہ مارا گیا نوجوان ایک 'خطرناک ڈکیت' تھا اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں کار چوری، ڈکیٹی، پولیس سے فائرنگ کے تبادلے اور دیگر تشویش ناک واقعات میں مطلوب تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ مارے گئے نوجوان کی تفصیلات اور ان کا کریمنل ریکارڈ دیگر اضلاع سے بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔

واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تاحال درج نہیں کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے انسداد دہشت گردی عدالت نے کراچی پولیس چیف کو جعلی مقابلوں میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری شروع کریں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

جج نے کراچی پولیس کے سربراہ ہدایت کی تھی کہ وہ عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں